قرآن، شب قدر، اسلامی کیلنڈر اور سائنس (شیخ نعیم کمال)

رب شرح لی صدری یسرلی امری ، واحلل عقدۃ من لسانی یفقہ قولی۔ اما بعد اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
کالم ہذا لکھنے کی بنیادی وجہ: قارئین گرامی قدر بندہ ناچیزمسلمان اور عربی کی ابتدائی تعلیم سے واقف ہونے کہ وجہ سے یہ یقین رکھتا ہے کہ قرآن حکیم کو رمضان کریم میں نازل فرمایا گیا اور پھر رمضان کریم کی وہ ایک با برکت رات ہے جسکو یہ شرف حاصل ہوا اسی کو ہی لیلتہ القدر کہتے ہیں اور اسکی اہمیت کو سورۃ قدر میں بیان کر دیا گیا ہے جس پر احادیث صحیحہ سے لیکر تا حال ہر اسلامی سکالر کا لٹریچر موجود ہے اسکی اہمیت اور فضیلت پر بندہ ناچیز اگر جسارت کرنے بیٹھ جائے تو محض الفاظ کا ضیاع ہی کرے گا لہذا ہر خاص و عام پہلے سے ہی واقف ہے۔ البتہ جو اہم سوال ہے، شائد تا حال وہ کسی نے نہ اٹھایا ہو ! معصومانہ سا سوال ہے کہ رمضان کریم میں لیلۃ القدرکی تعداد کتنی ہے؟ ہر عاقل وعالم و دانا و بالغ کا ایک ہی جواب ہو گا کہ ایک (1) ہی ہے کیونکہ قرآن کریم میں بھی ایک ہی رات کا ذکر ہے یعنی واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے ، تثنیہ اور جمع کے صیغے کا شائبہ بھی نہیں ۔ دوسری بات جو امت کے درمیان اجتماعی طور پر طے شدہ ہے کہ لیلتہ القدررمضان کریم کے آخری عشرے کی طاق رات ہے اور غالباستائیسویں رات ہو سکتی ہے ۔ جواب مل گیا ناں آپکو؟ اسی لیئے لوگ آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرتے ہیں۔

اب میں اصل سوال کی طرف بڑھتا ہوں کہ تمام امت مسلمہ کہتی ہے کہ رات ایک ہے مگر افسوس کہ یہ کم از کم دو لیلتہ القدر منائی جاتی ہیں۔ ہاں ناں حیران کیوں ہو رہے ہیں کہتے ایک ہیں مناتے دو ہیں! وہ کیسے جناب۔ دیکھیں فرض کیا کہ اس رمضان کریم میں سعودی عرب کی جو اکیسویں رات ہے وہ شب قدر ہے ، مگر وہ رات پاکستان کی بیسویں رات ہو گی۔ تو پس! شب قدر پاکستان میں دوسرے عشرے کی آخری یعنی بیسویں رات کو گزر گئی اور یہ اصول یا عقیدہ کہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات یا کوئی بھی رات، شب قدر ہوتی ہے، محض اتنی سی دلیل سے ہی پارہ پارہ ہو گیا جناب بندہ ! اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ سعودیہ میں بھی ستائیسویں ہی شب قدر ہے اور پاکستان میں بھی ستائیسویں ہی شب قدر ہے تو پس 2 علیحدہ علیحدہ راتیں شب قدر ہوئیں جو ہو نہیں سکتا۔ مگر کئی سو سالوں سے امت ایسا ہی تو کر رہی ہے ایک نہیں 2 شب قدر مناتی ہے ۔مگر ویسے پوچھو تو کہیں گے ایک ہی شب قدر ہے، حسین عقیدت زدہ تضاد ہے جو حقیقت کی طرف نظر اٹھانے میں بھی حائل ہے۔

نیا سوال پیدا ہو گیا یہاں جناب بندہ! کیا یہ ممکن ہے کہ پوری زمین پر رمضان کی وہ رات بھی ایک ہو اور ہو بھی طاق اور سب مسلمان ایک ہی دفعہ شب قدر پا لیں ؟ جی عمومی جواب تو یہی ہو گا کہ نا ممکن ہے کیونکہ سعودیہ اور دیگر ممالک میں تو رمضان ایک دن پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ مگر مقالہ یہی ثابت کرنے کیلئے لکھ رہا ہوں کہ یہ ممکن ہے کہ تمام روئے زمین پر وہ ایک ہی رات ہو اور ہو بھی طاق اور شب قدر اور مسلمان ایک دفعہ میں ہی وہ پا لیں، اس سے نہ صرف چاند کی رویت کے مسائل حل ہونگے ، بلکہ اسلامی کیلنڈر بھی بلا تفریق یکساں ہو جاتا ہے ۔

قارئین گرامی قدر بندہ ناچیز نے مورخہ 28.05.2019 کو ایک کالم بعنوان : چاند شرعی حکم اور سائنس رقم کیا۔ جس میں مختصراً یہی پیش خیمہ تھا کہ اگر سائنسی اصولوں اور ایجادات کو بروئے کار لا کرقمری کیلنڈر بنا لیا جائے تو یہ نہ صرف شرعی طور پر جائز ہو گا بلکہ بغیر کسی ابہام کے درست بھی ہو گا۔ اسی موضوع کو میں نے قدرے اختصار اور کم حوالہ جات، محض عقلی دلائل پر اکتفاء کر کے پیش خدمت کر دیا تھا۔

البتہ زیر نظر مقالہ میں لیلۃ القدر کی برکات سمیٹتے ہوئے، قرآن، سائنس، چاند اور اسلامی کیلنڈر کی باہمی تطبیق کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں باایں ہمہ پہلے کالم کو کالم ہذا کاحصہ تصور کرنے سے قاری پر آسانی سے حقیقت واضح ہو جائے گی۔

قارئین گرامی ہماری موجودہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ چاند اپنا زمین کے گرد ایک چکر 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ میں مکمل کرتا ہے۔ جسکو ہم 29 اعشاریہ 30588 دن کہیں گے۔ ایک اور اہم حقیقت جو سائنس نے ہم پر آشکار کی وہ یہ کہ سورج چاند کے مدار پر خاص طرح سے اور خاص وجوہ کی بناء پر کشش ثقل کے اثرات چھوڑتا رہتا ہے جس وجہ سے چاند زمین کے گرد کبھی اپنا چکر 29 اعشاریہ 26 دنوں میں مکمل کر لیتا ہے اور کبھی تاخیر سے 29 اعشاریہ 80 دنوں میں مکمل کرتا ہے۔ اسطرح اگر چاند اول الذکر وقت میں چکر مکمل کرے تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی مہینہ 29 کا تھا اور اگر بعد الذکر وقت میں مکمل کرے تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی مہینہ 30 ایام پر مبنی تھا۔ چاند پر مزید تحقیقی مطالعہ کرتے ہوئے من بندہ نکتہ فیصل پر پہنچا کہ جب چاند کی پیدائش شروع ہو جاتی ہے تو کم از کم 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بشرط صاف مطلع نیا چاند آنکھ سے نظر آنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

یہاں ایک نیا سوال پیدا ہوا کہ کیا ساری روئے زمین کیلئے چاند کی پیدائش ایک جیسی ہوتی ہے کہ مختلف ممالک کے جیوگرافیکل لوکیشن کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے؟ جی اسکا جواب بعد از تحقیقی مطالعہ یہی ملا کہ صرف رویت یعنی دیکھنے کے اعتبار سے تو مختلف ہے کیونکہ کہیں مطلع صاف، کہیں اندھیرا کہیں اجالا، کہیں بلندی کہیں پستی۔ مگر حقیقت میں چاند ایک ہی وقت میں تمام روئے زمین کے ممالک کیلئے ایک جیسا ہی پیدا ہوتا ہے اور ویسے ہی بلوغت پکڑ کر ایک ہی وقت میں زوال پذیر ہو جاتا ہے ، یعنی آج مورخہ 01.06.2019 کو اگر چاند کا غروبی فیز -12% پاکستان میں ہے تو یہی مقدرا دنیا کے ہر ملک میں ہے۔

جناب عالیٰ! اگلا متعلقہ سوال جو سائنس سے من بندہ نے کیا وہ کچھ یوں ہے کہ چاند کی آنکھ سے یا دور بین سے دیکھنے کی رویت دنیا کے کس ملک میں پہلے ہوتی ہے اور کہاں بعد میں؟ جیسا کہ عمومی مشاہدہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان سے قبل چاند نظر آجا تا ہے۔ تو سائنس نے خوبصورت جواب دیا کہ سورج پر تو یہ فارمولا ہے مگر چاند اس فارمولے سے بھی آزاد ہے، جیسا کہ سورج روئے زمین پر سب سے پہلے روس کے ایک مقام بڑا ڈایا میڈ پر طلوع ہوتا ہے اور اسی وقت پر صرف 10 میل پیچھے امریکہ کے ایک مقام جسکو چھوٹا ڈایا میڈ کہتے ہیںپر غروب ہو رہا ہوتا ہے اسی طرح سورج مشرقی ممالک کی طرف بڑھتا اور طلوع ہوتا جاتا ہے اور اپنے پیچھے غروب ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ دوبارہ چھوٹا ڈایا میڈ پر جا طلوع ہوتا ہے ۔ مگر چاند اس فارمولا سے مبرا ہے اسکی اپنی کشش زمین کے گرد اور سورج کی کشش چاند کے مدار پر اس پر پے در پے اثرات مرتب کرتی رہتی ہے اس بناء پر اسکی واضح اولین رویت کسی بھی ایک مقام پر مستقل نہیں جسکاواضح ثبوت ہے کہ بارہا مرتبہ سعودیہ اور پاکستان میں ایک ساتھ روزہ اور ایک ساتھ عیدیں ہو چکی ہیں۔ مگر چاند کی پیدائش کی فیصد پوری روئے زمین کے ممالک کیلئے یکساں اور ایک جیسی ہی ہوتی ہے جس پر کوئی کسی قسم کا سائنسی یا حقیقی اختلاف نہیں۔

قارئین گرامی قدر ! چاند کی پیدائش اور رویت بابت درج بالا حقائق جاننے کے بعد بندہ ناچیز کے ذہن میںعرصہ دراز سے پڑے چند اہم ترین اسلامی سوالات کے جوابات بطریق احسن خود بخودمل گئے، جن سے بندہ چاہتا ہے کہ آپ بھی استفادہ حاصل کریں یا پھر کم از کم بندہ ناچیز کی تو اصلاح ہو۔ سوالات میں پہلا سوال کہ شب قدر جب صرف ایک ہے تو پوری روئے زمین میں ایک ہی ہونی چاہیے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ آج سعودیہ کیلئے شب قدر مقرر کرے اور اسی رواںماہ میں اگلے دن پاکستان کیلئے شب قدر برپا کی جائے جو قرآن کو رو سے نا ممکن ہے، تو امت مسلمہ ممالک کے تفاوت سے الگ الگ کیوں مناتے ہیں کیا یہ ایک نہیں ہو سکتی بلکہ اسے ایک ہی ہونا چاہیے؟

دوسرا سوال یہ کہ جب قرآن کریم نے سورۃ رحمن میں واضح فرما دیا کہ الشمس و القمر بحسبان، یعنی دونوں سورج بھی اور چاند بھی حساب کیلئے مقرر کیئے گئے ہیں۔ جس سے یہ سبق نکلتا ہے کہ اے نوع انسان شمسی کیلنڈر استعمال میں لائیں یا قمری کیلنڈر دونوں میں نے ہی بنی نوع آدم کو عطا کیئے ہیں تو جس سے چاہیں استفادہ حاصل کریں یا دونوں سے بیک وقت کریں۔ یہاں یہی سوال نکلا کہ کیا روئے زمین پر رہنے والوں کیلئے قمری جو کہ اسلامی کیلنڈر بھی ہے ایک جیسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک انسان کہے کہ میں ربیع الاول کی 15 تاریخ کو پیدا ہوا تو ساتھ ہی پوچھا جائے گا کہ کونسے ملک کی ربیع الاول کی 15 تاریخ کو ؟ دوسری بات کہ ہمارے پیارے آقا حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ، ربیع الاول شریف کی 12 تاریخ کو جلوہ افروز ہوئے (متفق علیہ)، ہاں کتنا نازک مسئلہ ہے کہ ہم حضور ﷺ کی شان ولادت ہر سال 12 ربیع النور کو مناتے ہیں، مگر وہ تو سعودیہ کے حساب سے پاکستان کے 11ربیع الاول کو گزر چکی ہوتی ہے منا ہم اسے سعودیہ کی 13 ربیع الاول کو رہے ہوتے ہیں، آپ مجھے پاکستان کی 10 ذوالحج کے حساب سے حج ادا کر کے دکھائیں میں مان جائوں گا، نہیں کر سکتے آپ ، آپکو سعودیہ کہ حساب سے ہی حج ادا کرنا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا ہے ایسا کیوں ہے ؟ کسی نے نہیں در اصل امت میں اتحاد نام کی چیز ہی کوئی نہیں اورمثبت فکر نام کی چیز صدیوں پہلے دفن ہو چکی ہے کیونکہ ماضی قریب میں کچھ نام نہاد دینی چیلوں نے مسلکی اختلافات اور تعصب کی رو میں یہاں تک فتوے جارے کر دیئے ہیں کہ خبردار فلاں امام اور محقق کے بعد کسی نے دین کے کسی اصول یا فروع کی بابت کوئی تحقیقی بات کی تو وہ مرتد ہو جائے گا۔ عجیب قسم کے تالے امت کے قلوب و اذہان پر لگا دیئے گئے ہیں اللہ سے دعا ہے کہ سب کھل جائیں آمین

سائنس کی تحقیق کہ چاند بلا تفریق تمام روئے زمین کیلئے یکساں پیدا ہوتا ہے ، مگر باعتبار رویت کوئی معیارو مقام مقرر نہیں ۔مزید درج بالا سوالات کی بابت جب بندہ ناچیز نے اسلاف اسلامی محققین کی رائے جاننے کی نیت سے اپنے ایک مہربان اور انتہائی علمی شخصیت فاضل علامہ صفدر علی طیبی صاحب سے رسمی سی گفتگو کی تو انہوں نے بندہ ناچیز کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے کہا کہ آپ نے درست وقت میں درست موضوع پر درست طریقے سے قلم اٹھایا ہے اور پھر کچھ فقہی اقتباسات و کتب کے حوالے دے کر میری مزید مشکل آسان فرما دی۔ یاد رہے کہ مکتب فقہہ (قانون) ایک ایسا مکتب ہے جس میں مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں، اسلامی فقہا نے صدیوں پہلے تحقیق میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اسطرح بندہ ناچیز کے علم میں یہ بات آگئی کہ متفق علیہ فقہی حکم یہ ہے کہ ایک جگہ چاند نظر آجائے تو جہاں تک اسکی خبر پہنچے وہاں کے لوگ چاند کے مطابق احکام کی تعمیل کے پابند ہیںان کیلئے چاند خود نظر سے دیکھنا ضروری نہیں اطلاع کافی ہے ، بحوالہ کتب (فتح القدیر، رد المختار)۔

جناب عالی ! جب سائنسی علوم سے ہم پر یہ واضح ہو گیا کہ چاند جب پیدا ہوا تو پوری زمین کیلئے ایک جیسا پیدا ہوا مگر رویت کیلئے کوئی معیار نہیں وہ ایک وقت میں دنیا کے بہت سے ممالک میں یکساں دیکھا جا سکتا ہے اور دوسری طرف اسلامی فقہہ نے یہ مسئلہ حل کر چھوڑا ہے کہ کسی ایک جگہ جب چاند نظر آ جائے تو جہاں تک اسکی خبر پہنچے متعلقہ احکام لاگو ہو جائیں گے صرف خبر ضروری ہے وہاں کے لوگوں کا چاند دیکھنا ضروری نہیں۔ البتہ عالم اسلام و اسلامی ممالک کسی ایک ملک کو چاند کی رویت کیلئے معیار مقرر کر لیں مرکزی اور عالمی رویت حلال کمیٹی چاند نظر آنے کی خبر فوری تمام اسلامی ممالک کوایک لمحہ میںدے سکتی ہے اسطرح فقہی اور سائنسی دونوں اعتبار سے تمام عالم اسلام کا کیلنڈر ایک دن شروع ہو اور ایک دن ہی ختم ہو، حج ایک دن ہو، پیدائش رسول کی تقریبات ایک ہی دن ہوں اور سب سے بڑی بات کہ لیلتہ القدر بھی ایک ہی رات ہو گی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کونسا ملک یا مقام مرکزی عالمی رویت حلال کمیٹی کیلئے مقرر ہونا چاہیے؟ قرآن حکیم کی آیت کریمہ سے بڑی حجت تو کوئی نہیں فرمایا : ان اول بیت وضع لناس ببکۃ المبارکۃ بے شک یہ مکہ مکرمہ ہی ہے جسکو ہم نے بنی نوع آدم کیلئے اس روئے زمین پر بطور پہلی رہنے کی جگہ وضع فرمایا ۔ تو بلا شبہ وہ مقام مکہ المکرمہ ہی ہے جو تمام عالم اسلام کے قمری کیلنڈر کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہونا چاہیے۔ مزید جب میں زیر نظر مقالہ تحریر کرنے کی غرض سے گوگل پر سرچ کر رہا تھا تو بحوالہ وکی پیڈیا ایک حقیقت کا ادراک ہوا کہ فقہی کونسل برائے شمالی امریکہ اور یورپین کونسل برائے فتویٰ و تحقیق کے درمیان سال 2007 میں ایک شرعی اور فقہی طرز کا اتفاق و معاہدہ ہو گیا تھا کہ اسلامی کیلنڈر امریکہ اور یورپ میں ایک جیسا ہی رکھا جائے گا جو کہ بعد میں مسلکی اختلافات کا شکار ہے۔ لا محالہ مذکورہ ہر دو کونسل (ز) کے محقق ممبران بھی بندہ ناچیز کے اخذ کردہ درج بالا نکات تک ضرور پہنچے ہونگے اور فقہی محققین ہونے کی بناء پر انہوں نے درست فیصلہ لیا جسکو یقینا اسلام دشمنوں کی نظر لگی ہو گی اور فرقہ بندی کا شکار ہو گیا اور اتحاد امت میں روکاوٹ بن گیا۔

ویسے قارئین سے بھی اور اپنے علماء امت سے مودبانہ اور معصومانہ سوال ہے کہ جب چاند تمام روئے زمین کیلئے ایک وقت میں پیدا ہوتا ہے اور 24 گھنٹے بعد از پیدائش قابل رویت ہو جاتا ہے اور آئمہ فقہہ کے نزدیک کسی ایک جگہ کی رویت تمام مسلمان کے تمام مقامات تک خبر پہنچانے سے احکامات چاند کا اطلاق ہو جاتا ہے اور جب ہمیں آدھے منٹ میں علم ہو جاتا ہے کہ سعودیہ میں کل روزہ ہو گا یا عید ہو گی تو درج بالا حقیقت کے مطابق تو ہمارے علماء قصداً ہمیں ایک دن لیٹ روزہ شروع کرواتے ہیں اور جس دن عید ہونی چاہیے اس دن ہمارہ روزہ ہوتا ہے،واضح فقہی حکم اور مدلل سائنسی تحقیق کی موجودگی میں اس پر عمل کرنے میں کونسا امر مانع ہے؟ یہ سوال آپ سب کیلئے چھوڑے جاتا ہوں، واللہ اعلم بالصواب۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں