عظمت انسان…..! (میر افضل خان طوری)

انسان آج جس مقام پر کھڑا ہے یہ سب انکی مجموعی مسلسل کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
دنیا کا کوئی انسان جب کامیاب ہوتا ہے تو انکی اس کامیابی کے پیچھے انکی بہت بڑی محنت اور جدوجہد شامل ہوتی ہے۔
اسی طرح انسان کی ہر ناکامی کے پیچھے بھی برسوں کی مسلسل کوتاہیاں، غلطیاں اور سستیاں کار فرما ہوتی ہیں ۔
انسان نے اونچی اڑان میں آج تمام پرندوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے کیونکہ ان کی اڑان کئی ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتی ہے جو کہ بادلوں سے بھی اونچی ہے۔
انسان سمندروں کی ان گہرائیوں تک جا رہا ہے جہاں پر بہت سے سمندری جانور بھی نہیں پہنچ پاتے۔
قرآن مجید بار بار اس کی گواہی دے رہا ہے کہ تمام اشیاء کو انسان کیلئے قابل تسخیر بنا دیا گیا ہے۔ انسان پوری کائنات میں جہاں بھی چاہے جا سکتا ہے۔ جس چیز کو چاہیے مسخر کر سکتا ہے۔
انسان بڑے بڑے پہاڑوں کو چیر چیر کر اپنے لیے راستے بنا رہا ہے۔ سمندروں میں کئی کئی میل تک سڑکیں تعمیر کر رہا ہے۔ خلاوں میں گھوم رہا ہے تاکہ دنیا کے علاوہ بھی کہیں زندگی تلاش کر سکیں۔
انسان دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے میں ایک دوسرے سے نہ صرف بات کر سکتا ہے بلکہ دیکھ بھی سکتا ہے۔
یہ سب کامیابیاں اس بات کی دلیل ہیں  کہ انسان قدرت کی عظیم تخلیق اور شاہکار ہے۔ انسان مسلسل ارتقاء سے گزر رہا ہے۔ روز کچھ نیا کرنے کی تگ و دو میں مصرف عمل ہے۔
انسان جب اپنے اندر کی کائنات کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو انکے اندر چھپی ہوئی کائنات باہر نمودار ہوجاتی ہے۔ تب انسان ان نامعلوم حقائق تک بھی رسائی حاصل کر لیتا ہے جہاں تک رسائی حواس حمسہ کے ذریعے ڈائریکٹ ممکن نہیں ہوسکتی۔
بقول حضرت جوش ملیح آبادی(رح)

بصد ناز جدھر سے بھی گذر جاتا ہے
جادۂ زیست کا ہر ذرہ سنور جاتا ہے

تو مہ وسال کی یورش سے نکھر جاتا ہے
ضربت وقت سے کچھ  اور  ابھر جاتا ہے

توڑ  دیتی  ہے  چٹانوں  کو  روانی  تیری
رس پر آتی ہے بڑھاپے میں جوانی تیری

کسی بھی انسان کو حقیر سمجھنا قوانین قدرت کیخلاف ہے کیونکہ انسان کے کمال کا کوئی بھی حد مقرر نہیں ہے۔  انسان کی عظمت کا صرف وہی انکار کر سکتا ہے اور صرف وہی کسی انسان کو پست تصور کر سکتا ہے جو متکبر ہو۔ یعنی صرف شیطان ہی انسان کی عظمت کا منکر ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال(رح) فرماتے ہیں ۔۔۔
ہو اگر خود  نگر  و  خود گر  و  خود  گیر  خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے

If the ego is self‐preserving, self‐creating and self‐sustaining.
Then it is possible that even death may not make you die


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں