بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے افسوسناک واقعات (میر افضل خان طوری)

ان کا باپ مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ آج حسب دستور باب مزدوری کرنے کیلئے کام پر گیا ہوا تھا۔ ان کی ماں اور بچے گھر پر تھے۔ شدید گرمی تھی۔ گھر میں فریج نہ ہونے کی وجہ سے پانی بہت گرم تھا۔ بچے ٹھنڈے پانی کیلئے ضد کر رہے تھے۔ تو ماں نے کہا بیٹا بھائی بہن دونوں جا کر بازار سے برف لے آو۔ دنوں بہن بھائی بڑی خوشی سے گھر سے نکلے۔ بھائی نے اپنی بہن کے کاندھے پر ہاتھ ڈالا ہوا تھا۔ آپس میں چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے ہوئے سڑک پر جارہے تھے۔ اسی اثنا میں چند نا معلوم افراد نے ان پر حملہ کیا۔ وہ ان کی بہن کو اغواء کرنا چاہتے تھے۔ بھائی اپنی بہن کو بچانے کیلئے ان کے ساتھ مزاحمت کرنے لگا۔ سفاک اغواء کار جنسی ہوس میں قضا و قدر کو بھول چکے تھے۔ انھوں نے چاقو کے وار کر کر کے بچے کو شدید زحمی کر دیا۔ بچے کے جسم سے خون کے فوارے جاری تھے۔ آخر کب تک ایک چھوٹا بچہ اپنے زخمی جسم کے ساتھ وحشیوں کا مقابلہ کرتا۔ آخر کار وہ انسان نما حیوان ان کی چھوٹی بہن کو اغواء کرکے لے گئے۔

زخمی بچے کو لوگوں نے مقامی ہسپتال پہنچایا۔ مگر بدقسمتی سے اس ہسپتال میں سہولیات ہی موجود نہیں تھیں۔ بچے کو اتنے شدید زخمیوں کے باوجود اپنی فکر نہیں تھی۔ وہ بار بار کہتا رہا۔ وہ میری بہن کو مار دینگے، وہ میری بہن کو مار دینگے، وہ میری بہن کو مار دینگے۔

جب ان کے بے بس و لاچار باپ کو اطلاع ملی تو وہ ہسپتال کی طرف دوڑتا ہوا آیا۔ خون میں لت پت بچے کو دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیر چھا گیا۔ اللہ کسی باپ کو یہ دن نہ دکھائے۔ بچے کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ وہ میری بہن کو مار دینگے۔ میرے بہن کو ان سفاک ظالموں سے بچائیں۔ یہ جملے کہتا ہوا بچہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

اب غریب باپ کے پاس سوائے افسوس کرنے کے اور کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ یہ تو وہ باپ ہی جانتا ہے کہ ان کے دل پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی؟ انھوں نے اپنے بچوں کو اتنی غربت میں پالا تھا؟ انکی کیا امیدیں ہونگی؟ ان کی ماں کے دکھ اور درد کا کیا عالم ہوگا؟

دو دن بعد انکی چھوٹی ننھی پری کی تشدد زدہ لاش بھی کچرے سے ملی۔ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی اور ان کو تشدد کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔اس کے باوجود شہر کراچی میں آج بھی زندگی رواں دواں ہے۔ لوگ اس واقعے کو بھول چکے ہیں۔ کسی مولوی، سیاست دان، مذہبی تنظیم یا موم بتی مافیا نے اس دردناک اور ہیبتناک واقعے پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ کسی تنظیم نے ان سفاک ظالموں کو قرار واقعی سزا دینے یا کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ کسی مذہبی گروہ کو یہ توہین کعبہ نظر نہیں آئی۔ اس محلے میں لوگ مسجد بھی جاتے ہونگے۔ اسی محلے میں پانچ وقت نماز بھی ہوتی ہوگی۔ مگر ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے گلی محلے ہمارے اپنے بچوں کیلئے محفوظ نہیں ہیں۔ ہم جنازے دفنا کر کیوں ظالم کیخلاف خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہم ان بچوں کے والدین کے دکھ کو محسوس کیوں نہیں کرسکتے۔

ہم کتنے بے ضمیر اور بے حس ہو چکے ہیں۔ بار بار اس ملک میں ایسے ہی بھیانک واقعات رونما ہو رہے ہیں ہم نے آج تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کیخلاف نہ تو کوئی سخت قانون بنایا، نہ ان سفاک ظالموں کو پکڑنے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی کو سرعام کوئی سزا دی۔

ہمارا بے ضمیر میڈیا میں صرف چند سیاست دانوں کی باتوں اور کیسوں پر گھنٹوں بحث ہوتا ہے۔ ان کو اس ملک میں روز انسان جانوں کے قتل عام پر افسوس کرنے اور ایسے واقعات کو روکوانے پر بحث کرنے کیلئے کوئی وقت نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم سب اس بے انتہا ظلم کیخلاف کب مل کر آواز اٹھائیں گے؟


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں