جانوروں کی خرید، پیار کی فروخت! ( راؤ محمد نعمان)

گزشتہ کئی برس کی طرح اس سال بھی عیدالاضحی کی آمد سے قبل تمام چھوڑے بڑے شہروں میں قربانی کے جانور لانے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ پاکستان لائیو سٹاک (مویشیوں) کے شعبہ میں خود کفیل ہے اور عید قرباں کیلئے تمام جانور اپنے ہی ملک میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہر گاوں میں مقیم افراد کیلئے جانور پالنا منافع بخش کاروبار ہے۔ ویسے تو اگر ان جانورں پر سال بھر، دو یا پانچ سال تک کا خرچ شمار کریں تو یہ کاروبار منافع کے بجائے نقصان کا سبب ہے۔ لیکن روز کا تھوڑا تھوڑا خرچ کر کے جب کچھ ہزار فی جانور اکھٹے ملتے ہیں تو یہ کاروبار فائدہ میں محسوس ہوتا ہے۔ یہ تمام جانور گاوں والوں کے گھروں میں انسانوں کیساتھ رہتے ہیں۔ انسانوں کے بچوں کے کھیلنے کیلئے یہ کھلونوں اور ساتھی کھلاڑی کا کام بھی کرتے ہیں ساتھ ہی ان کے بہترین دوست بھی بن جاتے ہیں۔ جس وقت یہ جانور فروخت کئے جاتے ہیں اور ان بچوں سے جدا کیے جاتے ہیں جبکہ بچوں کو یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ انہیں کاٹ کھایا جائے گا تب ان جانوروں کے تمام سچے دوستوں کیلئے یہ لمحہ نہایت اذیت ناک ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر کی خواہش ہوتی ہیں کہ کاش کہیں سے ان چند ہزار روپے کا مالک یہ ذاتی طور پر ہوتا یا ہوتی اور گھر والوں کی مالی ضرورت کو پورا کر کے اپنے اس دوست کو ہمیشہ کیلئے اپنے پاس رکھ لیتے۔ اکثریت کیلئے یہ صرف حسرت ہی رہ جاتی ہے صرف چند ضدی یا بااثر بچے اپنے جانوروں کو بکنے یا قربان ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ جبکے کئی کی زندگی پر یہ بے بسی اثر انداز ہو کر بہت سی گہری سوچیں جنم دیتی ہے۔ میں ایک ایسے نشئی سے بھی ملا ہوں جس نے بتایا کہ اس نے پہلی سگریٹ تب پی تھی جب اس کے بکرے کو ذبح کر دیا گیا تھا اس نے اس لمحہ کو بہت زیادہ محسوس کیا اور نے دو تین دن رونے کیبعد غم بھلانے کیلئے کسی کے مشورہ پر سیگریٹ کا استعمال شروع کیا جو بعد بڑھتا ہوا چرس، افیم سے بھی آگے تک چلا گیا۔

جب کوئی جانور خرید رہا ہوتا ہے تو صرف جانور ہی نہیں کسی کا پیار بھی بک رہا ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ جملے مذاق یا فرضی کہانی لگ رہے ہو گے مگر صرف اہل دل ہی ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

ہمارے بڑے شہروں میں جانور رکھنے پر بیس پچیس سال سے سخت پابندی عائد ہے جس میں عید قرباں کے موقع پر کچھ نرمی برتی جاتی ہے۔ جانوروں کو بڑے شہروں سے نکالنے کی وجہ ان سے پیدا ہونے والا گوبر(فضلا) تھا جسے گندگی اور آلودگی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا تھا جبکہ اصل میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ پولی تھین بیگز (شاپر) اور پلاسٹک مصنوعات تھی جو اس ہی عرصہ میں ہمارے شہروں پر یلغار پذیر ہوئی۔ جو اب تمام چھوٹے دیہات تک تو کیا بڑے دریاؤں اور سمندر تک پھیل گئی ہے۔ آج بھی بڑے شہر میں کسی آبادی والے علاقہ کی زمین کو کھود کر دیکھ لیں دو سے پانچ جبکہ بعض مقامات پر پانچ سے دس فٹ یا اس بھی زیادہ تک مٹی شاپر اور ناکارہ پلاسٹک مصنوعات سے بھر پور ہو گی۔ جن میں نقصان پہنچانے والے حشرات کی بھی بھرمار ہوگی۔ زمین پر موجود اس پلاسٹک والی تہہ کی وجہ سے یہاں زمین پانی بھی جذب نہیں کر سکتی جس سے زمین کی نچلی تہہ اپنی ضرورت کے مطابق بارش کے پانی سے محروم رہتی ہے اور زمین میں موجودہ مرکبات بھی تیزی سے آلودہ بلکہ زہریلے ہو رہے ہیں۔ اسی سبب یہاں تھوڑی سی بارش سے شہروں میں سیلابی صورت حال بن جاتی ہے۔ اور ﷲ کی رحمت ﷲ کی مخلوق کیلئے زحمت، پریشانی اور لاتعداد مسائل لے کر آتی ہے۔

اس کے مقابلہ میں جانوروں کا فضلا بنجر زمین پر ڈال دیا جائے تو وہ نا صرف چند دن میں مکمل جذب کرلے گی بلکہ اسکی بدولت یہ زمین زرخیز ہو جائے گی۔ مگر پھر بھی جانوروں کا فضلا ہی وجہ آلودگی قرار پائے گا کیونکہ جانور پالنے والے غریب یا میلے کپڑوں والے ہوں گے۔

پولی تھین بیگز پر بھی مختلف ادوار میں پابندیاں لگتی رہی۔ پہلے سیاہ رنگت والے اس کے کافی سال بعد سفید کے علاوہ ہر رنگ کے اور اب تمام رنگوں کے شاپنگ بیگ بنانے، بیچنے اور استعمال کرنے پر مکمل پابندی لگ چکی ہے۔ پھر بھی یہ ہر جگہ ہر سائز اور ہر مقدار میں باآسانی دستیاب ہے۔ اس پابندی پر عمل درآمد نا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تیاری کیلئے اجزا بیرون ملک سے بڑے سرمایہ دار قیمتی زرمبادلہ کے عوض درآمد (Import) کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کاروبار بند نہیں ہو رہا۔
جن جانوروں کو باقائدہ طور پر قربانی کیلئے پالا جاتا ہے انہیں بچپن ہی میں خصّی (اس عمل سے اس کی جنسی قوت ختم کر دی جاتی ہے) کرنے کے انتہائی ظالمانہ عمل سے گزارا جاتا ہے۔ کیونکہ خصّی جانور کا گوشت غیر خصّی جانور کے گوشت کی نسبت زیادہ لذت والا ہوتا ہے۔ مگر اس درندگی کو لذت کے حصول، ذائقہ یا گوشت کی بھوک کے بجائے ﷲ کی راہ میں قربانی کیلئے تیار کرنے کا نام دیا جاتا ہے۔

قربانی کے موقع پر جانوروں کو ایک دوسرے کے سامنے نہایت بے دردی سے ذبح کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس پر تنقید کو مذہبی معاملات میں مداخلت اور گستاخی قرار دیا جاتا ہے۔

عیدالاضحی کے علاوہ پورا سال صدقہ کے نام پر بکری کے چند دن عمر کے معصوم بچے ذبح کر دئیے جاتے ہیں۔ جو کسی بھی طرح جائز عمل نہیں ہے۔
عیدالاضحی کے موقع پر جب جانور کسان سے بیوپاری اور منڈی کی ڈنڈی لگنے کے بعد گاہک تک پہنچتے ہیں تو ان کی قیمت دگنی ہو چکی ہوتی ہے یعنی سال بھر کی محنت جتنی آمدنی چند روز میں کوئی اور کما لیتا ہے۔ اگر کوئی کسان اپنے جانور براہ راست شہر میں لے آئے تو اس سے یہ جانور چھین کر کسی بلدیاتی ادارے کے اہلکار کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ بیوپاری ہی قبل از وقت رشوت اور دیگر معاملات طے کرکے اپنی مرضی کے مقام اور قیمت میں جانور فروخت کر سکتا ہے۔

کچھ برس سے عیدالاضحی کی آمد کے ساتھ کانگو وائرس کی اشتہار بازی بھی شروع کر دی جاتی ہے۔ جس کا اصل نام کریمین ہیمریجک کانگو وائرس ہے۔
یہ وائرس چیچڑ سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ تاہم تمام چیچڑ اس کے پھیلاو کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پاکستان میں موجود چیچڑوں کی اقسام میں سے صرف ایک قسم ہی اس وائرس کی حامل ہے۔ چیچڑ کی اس یا باقی تمام اقسام کا خاتمہ چند ادویات سے ممکن ہے مگر ہر بار اصل دوا کا حصول ناممکن کیونکہ پاکستان میں دستیاب ویٹرنری اور زرعی ادویات کی اکثریت جعلی ہے۔

کئی محکمے سال میں صرف پندرہ بیس دن کانگو وائرس سے بچاو کی مہم چلاتے ہیں اور باقی پورا سال ان جانوروں کے ساتھ رہنے والوں کو شاید انسان ہی نہیں سمجھتے۔ جب یہی جانور اپنے ہی ملک کے بڑے شہروں میں آتے ہیں تو ان پر خطرناک سپرے چھڑکنے سے لے کر ان کے پاس جانے کیلئے کپڑوں کے مخصوص رنگ تک کی ہدایات دی جاتی ہیں۔ کیونکہ چیچڑ گہری رنگت کے حامل ہوتے ہیں اس لیے یہ ہلکے رنگ کے کپڑوں پر باآسانی نظر آ جاتے ہیں۔

پاکستان میں جانوروں سے حاصل ہونے والی کھالیں فلاحی اداروں اور مدارس کی آمدنی کا بڑا حصہ بھی ہے۔ خام چمڑا (جس کی اکثریت عیدالاضحی کے موقع پر ہی حاصل ہوتی ہے) اور چمڑا مصنوعات ٹیکسٹائل مصنوعات کے بعد ملک کی دوسری بڑی برآمدات (Exports) ہیں جو قیمتی زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔ ہم برآمدات بڑھانے کیلئے جتنی عزت اور مواقع بڑی کمپنیوں کو دیتے ہیں اتنی عزت ان جانورں اور انہیں پالنے والوں کو دیدیں تو خوراک کی ضروریات بھی پوری ہوں گی ساتھ ہی زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں