14 اگست (راؤ محمد نعمان)

ہر سال 14 اگست کو پاکستان کا یوم آزادی بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ 13 اور 14 اگست کی رات بڑے شہروں میں خوب فساد برپا کیا جاتا ہے۔ ہوائی فائرنگ کے نتیجہ میں اندھی گولیاں چند پاکستانیوں کی جان ضرور لیتی ہیں۔ سڑکوں اور بازاروں میں بہنوں، بیٹیوں کے سر سے دوپٹے اور چادریں کھینچ کر 1947 کے مظالم کی یاد بھی اکثر مقامات پر تازہ کی جاتی ہے۔ پولیس کی بھاری نفری ہلڑ بازی کیلئے بدنام مقامات پر تعینات کی جاتی ہے لیکن اس سے فسادی دیگر علاقوں میں پھیل کر پاکستانیوں کا جینا حرام کرتے رہتے ہیں۔ کئی فسادی بھی اسی رات حادثات کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ چند سال پہلے تک قومی پرچم بلند جگہوں پر لگانا، کپڑے اور کاغذ پر چھپے ہوئے قومی پرچم (جن کو جھنڈی کہا جاتا ہے) کو بڑی تعداد میں لگانے اور ان سے سجاوٹ کرنے کا اہتمام کیا جاتا تھا جو اب کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ ان کی جگہ پلاسٹک کی جھنڈیاں، قومی پرچم کے رنگ کی ٹوپیاں، کپڑے پہننا، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور اپنے چہروں کو بھی انہی رنگوں سے رنگنے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ اس پورے ہفتے میں گندگی کے ڈھیروں اور عام راستوں پر بڑی تعداد میں قومی پرچم کے ڈیزائن کی جھنڈیاں، اسٹیکرز اور دیگر اشیا دیکھنے میں ملتی ہیں جو آزادی کا جشن منانے کے بعد ناکارہ ہونے پر پھینک دی جاتی ہیں یا نصب شدہ مقام سے بارش اور ہوا کے باعث یا خود بخود گر چکی ہوتی ہیں۔ قومی پرچموں کو پیروں تلے روندنے کی بے حسی کرنے میں شاید ہی دنیا کی کوئی قوم پاکستانیوں سے آگے نکل سکے۔
جشن آزادی کی موجودہ روایات سے اور بھی بہت سے شکوے کیے جا سکتے ہیں مگر تھوڑی سی نظر تاریخ پر ڈال لیتے ہیں۔

پاکستان 14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب 12 بجے قائم ہوا تھا یعنی برصغیر کی تقسیم ہوئی تھی۔ پاکستان اور بھارت دونوں کے علیحدہ انتظامی یونٹ بن گئے تھےجن کو آزادانہ حکومت کرنے کا اور دونوں کی اسمبلیوں کو دستور سازی کا اختیار حاصل تھا مگر دونوں میں ہی بادشاہت قائم رہی تھی اور دونوں کا بادشاہ برطانوی بادشاہ جارج ششم ہی تھا۔ جارج ششم 26 جنوری 1950 کو بھارت کے جمہوریہ بننے تک بھارت کا بادشاہ رہا جبکہ 6 فروری 1952 کو اپنی موت تک برطانیہ اور دیگر کئی ممالک سمیت پاکستان کا بھی بادشاہ تھا۔ اسکی موت کے بعد اس کی بیٹی ملکہ ایلزبتھ دوم برطانیہ کے ساتھ پاکستان کی بھی ملکہ بن گئی۔ جو پاکستان کی تاج برطانیہ سے اصل آزادی اور پہلے دستور کے نفاذ 23 مارچ 1956 تک پاکستان کی ملکہ رہی۔ آج بھی ایلزبتھ دوم برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینڈا سمیت درجن بھر دیگر ممالک کی ملکہ ہیں۔
کیونکہ پاکستان اور بھارت کو انتقال اقتدار 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب بوقت 12 AM ہوا اس لحاظ سے پاکستان 15 اگست کو قائم ہوا۔ 15 اگست 1947 کو لارڈ ماونٹ بیٹن نے حلف برداری کیلئے بھارت پہنچنا تھا اس لیے قائداعظم محمد علی جناح سے ایک روز قبل ہی حلف لے لیا گیا۔ سر کا خطاب پانے والے اور پاکستان کے پہلے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والے میاں عبدالرشید نے ان سے حلف لیا۔

اس تقریب کی وجہ سے پاکستان کے قیام کا جشن جشن آزادی کے نام سے 14 اگست کو ہی منایا جاتا ہے۔ 14 اگست سے قبل اور بعد کے حالات، سب سے بڑی مسلم ریاست کے قیام اس کے اسباب اور انجام، دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اور اس سے جڑے درد ناک واقعات پر بہت کچھ تحریر کیا جاسکتا ہے۔ مگر میں آج اپنے الفاظ ضبط کرکے اپنے سب سے بڑے استاد شاعر عوام حبیب جالب صاحب کی ایک نظم چودہ اگست تحریر کرتا ہوں جو 14 اگست 1947 سے پہلے اس حوالے سے سوچ اور اس کے بعد کے حالات کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔

اس نظم میں صرف دو الفاط کو بدل کر پڑھ لیا جائے جیسے “ادیبوں کو ہے آدم جی نے گھیرا” کی جگہ “ادیبوں کو ہے آصف غفور نے گھیرا” کیونکہ موجودہ سینسرشپ انہی کے اشاروں پر ہو رہی ہے۔ دوسرا “ثنا بندوں ہم سنتے ہیں اکثر
خدا سے بھی زیادہ ریڈیو پر” اس کی جگہ اگر اسطرح پڑھ لیا جائے “ثنا بندوں کی ہم سنتے ہیں اکثر خدا سے بھی زیادہ میڈیا پر” تو یہی نظم موجودہ حالات کی بھی مکمل روداد ہے۔

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری

وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا

بہاروں نے دیئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو

گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے

یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سرِمحنت کشاں پر تاج ہوگا

نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی

نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشکِ جنت یہ زمینیں

کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو راہزنوں کا غم نہ ہوگا

لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی عید اپنی

مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورتِ حالات اب تک

خوشی ہے چند لوگوں کی وراثت
کہا جاتا ہے غم ہیں اپنی قسمت

ہوئے ہیں جھونپڑے ہی نذر طوفاں
مگر قائم ہے اب تک قصر و ایواں

خدایا کوئی آندھی اس طرف بھی
الٹ دے ان کلہداروں کی صف بھی

زمانے کو جلال اپنا دکھا دے
جلا دے تخت و تاج انکے جلا دے

ہے ابھی تک پابجولاں خطہ پاک
پڑی آزادیوں کے سر پہ ہے خاک

ستارہ اوج پر ہے رہزنوں کا
نہیں پرساں کوئی خستہ تنوں کا

نہیں وقعت کسی اہل نظر کی
عبادت ہو رہی ہے سیم و زر کی

خوشامد کا صلہ تمغائے خدمت
خوشامد سے ملے سفلوں کو عزت

خوشامد جو کرئے فنکار ہے وہ
جو سچ بولے یہاں غدار ہے وہ

لب اہل قلم پر ہیں قصیدے
دکاں ٹکسائی کی ہیں یا جریدے

ثنا بندوں کی ہم سنتے ہیں اکثر
خدا سے بھی زیادہ ریڈیو پر

ادیب و شاعر و ملا و رہبر
سبھی کچھ ہو گیا ڈپٹی کمشنر

ادیبوں کو ہے آدم جی نے گھیرا
چٹانوں پر کہاں ان کا بسیرا

ادب میں اب کہاں دل کا اجالا
ادیبوں نے قلم کو بیچ ڈالا

ہیں باہر بائیاں سازندے اندر
یہ سب غنڈوں کے ہیں کارندے اندر

ابھی غنڈے تو ہیں محلوں میں آباد
کریں گے ہم وطن کو ان سے آزاد

کریں گے ضبط ہم جاگیر ان کی
نہ چلنے دیں گے ہم تدبیر ان کی

یہ دولت کی ہوس، جاگیر داری
ہیں دونوں لعنتیں دشمن ہماری

یہ دونوں لعنتیں جب تک رہیں گی
جہاں میں ندیاں خوں کی بہیں گی

بہتے لہو میں سب ترا مفہوم بہہ گیا
14اگست صرف ترا نام رہ گیا

جلنا ہے غم کی آگ میں، ہم کو تمام شب
بجھتا ہوا چراغ سرِ شام کہہ گیا

ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تاب غم
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کہ سہہ گیا

گزرے ہیں اس دیار میں یوں اپنے روز و شب
خورشید بجھ گیا کبھی مہتاب گہہ گیا

مجھ سے خفیف ہیں میرے ہم عصر اس لیے
میں داستان عہد ستم کھل کے کہہ گیا

شاعر حضورِ شاہ سبھی سر کے بل گئے
جالب ہی اس گناہ سے بس دور رہ گیا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں