صلاح الدین، پولیس اور ہمارا اجتماعی رویہ! (ساجد خان)

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک شخص اے ٹی ایم سینٹر میں داخل ہوتا ہے۔ کمرے کے اندر لگے کیمرے کو دیکھ کر منہ بناتا ہے اور پھر اے ٹی ایم مشین کو زور لگا کر کھولنے کے بعد، اس میں موجود کارڈ نکال کر رفوچکر ہو جاتا ہے۔

اس ویڈیو کو دیکھ کر اکثریت محظوظ ہوئی اور اس شخص کی بیوقوفی یا دلیری پر حیرانگی بھی ہوئی کہ اسے اپنی شناخت ظاہر کرنے میں بالکل بھی خوف نہیں تھا۔

دو دن بعد وہ چور پولیس کے ہاتھوں گرفتار کر لیا جاتا ہے اور میڈیا نے اس خبر کو کافی کوریج دی۔

وہ چور گونگا تھا اور شاید بہرا بھی، اس لئے وہ پولیس حراست میں اشاروں کی زبان سے اپنا موقف پیش کر رہا تھا۔

اس ویڈیو میں چور کہ جس کا نام صلاح الدین تھا، بار بار آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کر رہا تھا شاید وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ یہ میرے اور میرے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔

اس کے رویہ سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ پولیس سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہے اور شاید یہی وجہ اس کی موت کا سبب بنی۔

جی ہاں صلاح الدین پولیس حراست میں فوت ہو چکا ہے اور اس کے جرم کی سزا بھی یہی تھی۔

چوری کرنے کی نہیں بلکہ پولیس حراست میں اعتماد کے ساتھ کھڑے ہونا۔

آپ تصور کریں کہ ایک شخص جو کہ بول نا سکتا ہو، اس کے ہاتھ بھی بندھے ہوں، وہ پولیس کو کیسے بتا سکتا تھا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، میری سانس رک رہی ہے، اس نے اپنی پوری کوشش کی ہو گی کہ وہ اپنی تکلیف سمجھا سکے مگر پولیس بولنے والوں کی زبان نہیں سمجھتی تو ایک گونگے کی زبان کیسے سمجھتے۔

راج برطانیہ میں پولیس نظام بنانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ ہزاروں میل دور سے آئی برطانوی فوج کے برصغیر پر قبضہ کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے اور اس کے لئے پولیس کا ایسا نظام ہو کہ جس سے پولیس عوام کی خادم کے بجائے عوام کی حاکم نظر آۓ، اس پولیس نظام کی وجہ سے ہی برطانیہ راج نے طویل حکمرانی کی۔

انگریز راج ختم ہو گیا مگر سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی پولیس نظام نہیں بدلا اور آج بھی ایک شریف شہری کو پولیس دیکھ کر عدم تحفظ کا احساس ہونے لگ جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ پولیس کو صلاح الدین کا رویہ اجنبی سا لگا، ان کے نزدیک تو سب سے اچھا رویہ یہی ہے کہ پولیس ایک تھپڑ بھی مارے تو ملزم کو فوراً پولیس اہلکار کے پاؤں پڑ جانا چاہئے، رحم کی اپیل کرنی چاہئے، ہاتھ جوڑنے چاہئیں، ان کی غلیظ گالیاں نہیں تابعداری کے ساتھ برداشت کرے یا پھر لوٹے ہوئے مال میں سے ایک معقول حصہ دے دینا چاہیے تھا۔

صلاح الدین نے یہ سب کچھ نہیں کیا ہو گا شاید اسی لئے پولیس نے اس رویہ کو اپنی تذلیل سمجھا اور اس چور سے جینے کا حق بھی چھین لیا۔

یہ سزا ہر چور کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف کمزور کی سزا ہے ورنہ جس دن صلاح الدین کی تدفین کی جا رہی تھی، اسی وقت صدر مملکت بڑے چوروں کے دو سو ارب روپے معاف کر رہے تھے۔

اللہ بخشے مرحوم عمران خان کو، سچ کہتا تھا کہ پاکستان میں جو جتنا بڑا چور ہے، اسے اتنا بڑا مقام حاصل ہے، کاش کہ وہ آج ہمارا وزیراعظم ہوتا تو اول یہ واقعہ رونما ہی نا ہوتا اور اگر ہوتا تو پولیس اہلکار بھی چوک پر لٹکے نظر آتے اور قوم کے دو سو ارب روپے ڈکارنے والے سرمایہ کار بھی جیل کی ہوا کھا رہے ہوتے۔

اس حکومت میں تو صلاح الدین کو انصاف ملنے کی توقع نہیں ہے کیونکہ اگر یہ حکومت منصف مزاج ہوتی تو کئ ماہ پہلے سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو سزا مل چکی ہوتی؟

صلاح الدین چھوٹا چور تھا، اسی لئے پولیس نے تشدد سے مار دیا جبکہ دوسری طرف چند سرمایہ کار بڑے چور تھے، اس لئے ان کا گناہ اور سزا دونوں معاف کر دیئے گئے۔

پولیس بھی چھوٹے چور کو ڈنڈا مارتی ہے جبکہ بڑے چور کو سیلوٹ۔

صلاح الدین کے قاتل اہلکاروں نے چند دن قبل ہی وزیراعظم پاکستان کی اپیل پر کشمیر میں ہندوستانی فوج کے مظالم کے خلاف کھڑے ہو کر احتجاج ریکارڈ کروایا ہو گا۔

اخبارات میں بیانات بھی شائع کئے ہوں گے، علاقے کے افراد کو بھی مظاہروں میں شرکت کے لئے مجبور کیا ہو گا لیکن اپنے ہی تھانے میں ہندوستانی فوج سے بھی بدتر رویہ اختیار کیا گیا۔

یہ ہمارا افسوس ناک رویہ اجتماعی طور پر ہے، ہم چھوٹے چور کو باندھ کر تشدد کرتے ہیں جبکہ بڑے چوروں کی اربوں روپے کی لوٹ مار کو نظرانداز کر کے انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کی غلط کاریوں کا صدقِ دل سے دفاع کرنا بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ظلم صرف اسے گردانتے ہیں جو غیر مسلم کسی مسلمان پر کرے ورنہ جتنا ظلم ہم خود ایک دوسرے پر کرتے آ رہے ہیں، اس کا آدھا بھی کافر نے ہم پر نہیں کیا ہو گا۔

ہمارے ملک میں جہاں پولیس نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہیں بحیثیت قوم اپنے رویہ پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی کیونکہ سیانے کہہ گۓ ہیں کہ جیسی عوام، ویسے حکمران۔

جب ہمارا اپنا کردار ہی ایسا ہے تو پھر ہمیں اپنے حکمرانوں پر تنقید کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔

ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہو گا ورنہ سانحہ ساہیوال جیسے واقعات بھی رونما ہوتے رہیں گے اور صلاح الدین بھی پولیس کے ہاتھوں مرتے رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں