خود بدلتے نہیں، قانون بدل دیتے ہیں! (ساجد خان)

اسے اتفاق کہیں یا پنجاب پولیس کا روایتی رویہ کہ گزشتہ چند دنوں میں پنجاب کے مختلف شہروں میں پولیس تشدد سے متعدد شہری اپنی جان گنوا بیٹھے،وہ سزا وار تھے یا بے گناہ اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہوتا ہے،پولیس کا صرف یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ملزم کو گرفتار کر کے جج کے سامنے پیش کرے مگر پنجاب میں پولیس ہی سزا دینا بہتر سمجھتی ہے اور اس پر بھی ظلم یہ ہوتا ہے کہ خود ہی ایف آئی آر درج کرتے ہیں،خود ہی عدالت لگاتے ہیں اور خود ہی سزا دیتے ہیں۔
یکے بعد دیگرے جب پولیس تشدد سے ہلاکتوں کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو میڈیا نے اس پر بحث مباحثہ شروع کیا اور یہ سوال بھی اٹھنے لگا کہ پاکستان تحریک انصاف جس کے انتخابی منشور میں پولیس اصلاحات اولین ترجیح میں شامل تھیں،وہ وعدہ کہاں گیا۔
اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ پنجاب کی وزیراعظم سے ملاقات کی خبر آئی کہ جس میں عثمان بزدار نے پولیس اصلاحات پر پیشرفت بتائی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کیونکہ سانحہ ساہیوال کے بعد بھی وزیر اعلیٰ فوراً ہی وزیراعظم کو پولیس اصلاحات پر پیشرفت بتاتے نظر آۓ تھے۔
خیر اس مرتبہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت کچھ نا کچھ تو ضرور کرے گی اور یہی ہوا،آئی جی پنجاب نے حکم صادر کر دیا کہ اب کوئی بھی شہری یا پولیس اہلکار تھانے میں موبائل فون استعمال نہیں کرے گا اور ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی یعنی اپنی غلط حرکات نہیں بدلنی مگر قانون بدل دینا زیادہ آسان سمجھا۔
یہ کیسی اصلاحات ہیں کہ جس کا مقصد پولیس کے مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی نا کہ پولیس نظام کو بہتری کی طرف لانے کے لئے کوئی اقدامات کۓ جائیں۔
آج اکیسویں صدی میں اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں شہریوں کو پولیس کے ناروا سلوک سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی حد تک اقدامات کۓ گۓ ہیں،پولیس اہلکار جب ڈیوٹی پر موجود ہوتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ سرکار کی طرف سے دی گئی جیکٹ ضرور پہنے کہ جس میں کیمرا نصب ہوتا ہے،اب اگر کوئی اہلکار اپنے اختیارات سے تجاوز کرے گا تو اس کے باڈی کیمرے کی ریکارڈنگ دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ اس نے جرم کیا ہے یا نہیں،اس کے علاوہ شہری کو بھی حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ پولیس کے ساتھ کی گئی بات چیت کی ویڈیو ریکارڈنگ کر سکتا ہے۔
ایک ریاست پولیس کے نظام کو بہتر کرنے کے لئے اس حد تک ہی جا سکتی ہے کیونکہ پولیس شہریوں کو محفوظ زندگی فراہم کرنے کے لئے ہوتی ہے نا کہ زندگی اجیرن کرنے کے لئے مگر برصغیر میں پولیس نظام بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ یہ ادارہ برطانیہ راج کے قبضے کو مزید مضبوط کرے۔ہم انگریز راج سے تو آزادی حاصل کر چکے مگر ان کے بنائے گئے غلامانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام رہے کیونکہ انگریز راج کے بعد بھی ہم پر راج کرنے والے حکمران ہمیں غلام ہی گردانتے ہیں۔یہ کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہو گا کہ دوسرے ممالک میں عوام کی سہولیات کے لئے ادارے قائم کۓ جاتے ہیں مگر پاکستان میں اداروں کے لئے عوام کو بسایا گیا ہے۔
حکومت کے پاس پیسہ کم پڑ گیا،عوام پر ٹیکس بڑھا دو۔ڈیم بنانا ہے،عوام سے چندہ لو۔ہسپتال بنانا ہے،عوام سے زکوۃ لو۔ملک کا قرض اتارنا ہے تب بھی عوام سے رابطہ کرو،یہاں تک کہ گزشتہ حکومت لوٹ مار کر گئی،عوام پر بوجھ ڈال دو مگر عوام کو سہولیات نہیں دینی۔
عوام ہسپتالوں میں سسک سسک کر مر رہی ہے مگر ہسپتال کے حالات بہتر نہیں کرنے،سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،مرمت نہیں کرنی لیکن ہر ماہ پٹرول کی قیمت بڑھانا نہیں بھولنا۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو ابھی تک اچھی قیادت نہیں مل سکی،ہم سنگا پور،ملیشیا اور ترکی کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر ڈاکٹر مہاتیر محمد اور طیب اردگان بننے کی کوشش نہیں کرتے جنہوں نے اپنے ممالک کو چند سالوں میں ہی ترقی پذیر سے ترقی یافتہ بنا دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی اگر ہم بات کریں تو یہ جماعت باقی جماعتوں سے زیادہ شاطر نکلی کہ آج تک کوئی بھی سیاسی جماعت پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے کو اپنی طرف مائل نہیں کر سکی،اس جماعت نے نا صرف اس طبقے کو اپنی طرف مائل کیا بلکہ نہایت خوبصورتی سے بیوقوف بھی بنایا۔
وہ نیا پاکستان کے خواب،وہ امیدیں،وہ سب وعدے حکومت ملنے کے ساتھ ہی قصہ پارینہ ہو گۓ،آج وہ طبقہ یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ ماضی کے حکمران بیشک کرپٹ تھے،لوٹ مار کرتے تھے مگر اس کے باوجود عام شہری کے حالات اس نیک اور پارسا حکومت سے بہت بہتر تھے۔
عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں پنجاب پولیس کی خامیاں بیان کیں اور وعدہ کیا کہ اس کی حکومت آتے ہی سب سے پہلا کام پولیس نظام میں اصلاحات کا کیا جائے گا مگر آج حکومت ملنے کے ایک سال بعد پولیس اصلاحات کا ذکر تب کیا جاتا ہے جب ملک میں پولیس مظالم پر بحث چھڑی ہوتی ہے،جوں ہی یہ معاملہ ختم ہوتا ہے،پولیس اصلاحات کا ذکر بھی ساتھ ہی دفن ہو جاتا ہے۔
آخر ایسا کب تک چلے گا،کب تک حکمران پولیس کے سہارے اپنی حکومتیں قائم رکھیں گے اور کب تک شہری پولیس کے ہاتھوں مرتے رہیں گے۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے جرائم اس لئے بھی رپورٹ نہیں ہوتے کہ مظلوم تھانے جانے سے بہتر خاموش رہنا پسند کرتا ہے کیونکہ وہاں عزت بھی جاتی ہے اور پیسہ بھی۔
بہت سے واقعات میں شہری تھانہ جانے سے اس لئے بھی پرہیز کرتے ہیں کہ جو نقصان چوری میں ہو چکا،اس سے کہیں زیادہ پولیس والے لے لیں گے۔
جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو اس دوران عمران خان کے مثالی صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک اور حیران کن فیصلہ سامنے آیا کہ ہری پور میں طالبات کو اوباش نوجوانوں کی چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کے لئے تاریخی فیصلہ کیا کہ اب طالبات پر عبایا پہننا لازم ہو گا۔میں بذات خود خواتین کے باپردہ ہونے کو مثبت تصور کرتا ہوں مگر صرف اس لئے یونیفارم میں عبایا لازم قرار دیا جائے کیونکہ ریاست ان کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گئی ہے تو یہ فیصلہ انتہائی شرمناک ہے۔
اس فیصلے کو پڑھ کر ایک لطیفہ یاد آ گیا کہ ایک جج صاحب جیل کا دورہ کر رہے تھے اور ہر قیدی سے سوال جواب کر رہے تھے کہ اس نے کیا جرم کیا ہے،اس دوران جج نے جیل کے کمرے کے کونے میں ایک باریش شخص کو دیکھا جو خاموش بیٹھا تھا،جج نے کہا ہاں بھئ! تم کس جرم میں قید ہو۔اس سے پہلے کہ قیدی کچھ جواب دیتا جیل اہلکار نے کہا سر! یہ مجرم نہیں ہے۔
جج نے حیرانگی سے پوچھا کہ پھر یہ قید کیوں ہے،جیل اہلکار نے کہا کہ یہ شخص قتل کے مقدمے کا مدعی ہے،اس لئے اس کی جان کو خطرہ ہے،ملزمان کیونکہ بااثر ہیں،اس لئے ہم انہیں گرفتار نہیں کر سکتے لہذا ہم نے فیصلہ یہی کیا ہے کہ مدعی کی جان محفوظ رکھنے کے لئے اسے جیل میں بحفاظت رکھا جائے۔
اب صورتحال اس معاملے میں بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نہیں روکا جا رہا الٹا اسکول کی طالبات کو ان درندوں سے خود کو محفوظ رکھنے کے اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کیا ان اقدامات سے بچیاں محفوظ ہو جائیں گی،بالکل بھی نہیں۔چند ماہ قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک سی سی ٹی وی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک لڑکی گلی سے گزر رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والے ادھیڑ عمر موٹرسائیکل سوار نے اس کے ساتھ قبیح حرکت کی،اب وہ لڑکی تو باپردہ تھی مگر پھر بھی محفوظ نا رہ سکی۔آپ ان اقدامات سے نئ نسل کو محفوظ نہیں کر رہے بلکہ خوفزدہ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں کتنے ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں،جس میں تین سے چار سال کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی،کیا اب انہیں بھی عبایا پہنایا جائے گا۔وہ تو بچیاں تھیں،یہاں تو بچے بھی زیادتی سے محفوظ نہیں ہیں،اب کیا لڑکے بھی عبایا پہن کر اسکول جایا کریں ؟
ہمیں نظام تعلیم بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم میں شعور آۓ،پولیس نظام اچھا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ جو ایسی حرکات کریں انہیں سخت سے سخت سزا ملے۔
پاکستان میں یہ پالیسی نئ نہیں ہے بلکہ گزشتہ چار دہائیوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے۔
محرم میں اہل تشیع کے جلوس ہوں یا ربیع الاول میں اہلسنت کے جلوس،ان کے اردگرد تمام سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کر بلاک کر دیا جاتا ہے،موبائل نیٹ ورک بند کر دیا جاتا ہے کیونکہ ریاست دہشتگردوں کو روکنے میں ناکام ہے،اس لئے شہریوں کو محصور کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کو اسی “ڈنگ ٹپاؤ پالیسی” نے نقصان پہنچایا ہے،کوئی بھی واقعہ منظر عام پر آۓ فوراً ہی ادارے کا سربراہ معطلیاں شروع کر دیتا ہے تاکہ معاملہ ٹھپ ہو جائے لیکن اس مسئلہ کا مستقبل حل نہیں ڈھونڈا جاتا۔
جب تک یہ عارضی اقدامات کۓ جاتے رہیں گے،قصور جیسے واقعات ہوتے رہیں گے،بچیاں غیر محفوظ ہوتی رہیں گی اور شہری تھانوں میں مرتے رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں