خاموش صلیبی جنگ اور امت مسلمہ! (انشال راؤ)

ریاستوں میں زوال کے اثرات اور خامیاں شروع سے ہی موجود ہوتی ہیں لیکن اگر حاکم طاقتور اور صاحب بصیرت ہوں تو ان خامیوں کو ریاست پر اثرانداز نہیں ہونے دیتے اور پوری توانائی ریاستی استحکام پہ لگاتے ہیں کہ ہر طرح کی مخالفت اور سازش ریاست پر اثرانداز نہ ہوں، ریاستوں کے زوال کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو حکمرانوں کی نااہلی ہی انکے زوال کا سبب بنی، قوموں پہ عروج و زوال آتے رہتے ہیں آجکل امت مسلمہ بحیثیت مجموعی اس کی زد پہ ہیں ایک کے بعد کے دنیا نمبروار ایک ایک مسلمان ریاست کو تباہ ہوتے دیکھ رہی ہے اور یہ سلسلہ کامیابی کیساتھ آگے کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، کون ہے جو نائن الیون کے واقعے سے واقف نہیں، کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کی بحث میں الجھے بغیر ہی آگے بڑھتے ہیں، نائن الیون کے ہفتے بھر بعد امریکی صدر بش کی تقریر اس وقت دنیا بھر میں موضوع بحث رہی مگر کچھ قوتیں بڑی چالاکی سے اس کا مفہوم بدل کر دکھانے میں کامیاب ہوگئیں، صدر بش نے ستمبر 2001 میں صلیبی جنگوں کا آغاز کرنے کا اعلان کیا، اس تقریر پر سابق مصری سفیر نے تبصرہ کرتے ہوے ردعمل دیا تھا کہ اپنے تجربے کے مطابق اس جارحانہ تقریر سے مجھے ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ اہل اسلام کیخلاف جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے، صدر بش نے اپنے خطاب میں جو الفاظ استعمال کیے انکی سمری یہ تین جملے تھے “We have started Crusade, war against terror, the fight between good & devil” جوکہ کھلم کھلا صلیبی جنگوں کا اعلان تھا، اور انتہائی شد و مد کیساتھ اسلام پسندوں کو دہشتگرد کے طور پر مشہور کردیا گیا اگر کہیں کوئی مذہبی گروپ ریاستی استحکام کے ساتھ جڑا ہوتا تو وہ تو پکا دہشتگرد مشہور ہوتا ہی ہوتا بلکہ اس ریاست کو بھی دہشتگردی کیساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی، اس پروپیگنڈے میں کامیابی کے بعد war against terror کا نام دیکر پہلے پہل افغانستان پر چڑھائی کی گئی کچھ عرصے بعد اس کا دائرہ وسیع ہوتا نظر آیا اور یہ جنگ عراق تک پھیلادی گئی، سازشی منصوبوں کے زریعے صدیوں سے ساتھ رہتے شامی آپس میں ٹکرادئیے آج شام تباہ و برباد ہے، لبنان کا حال بھی پورا سورا ہے، یمن آگ و خون کی لپیٹ میں ہے، انتہائی خوبصورتی سے ہنستے بستے عرب ممالک کو عرب اسپرنگ کی ہوا چلا کر عدم استحکام کا شکار کردیا، لیبیا جو ایک طاقتور اسلامی ریاست تھی ایک چھوٹا سا پروپیگنڈہ گھڑ کر غیراعلانیہ صلیبی نائٹس کا شکار بنادیا اور خانہ جنگی کی نذر کرکے چھوڑ دیا، مصر پر سیسی کے زریعے کنٹرول کروالیا بالکل اسی طرح ترکی کیخلاف بھی سازش کی گئی جسے ترک عوام نے ناکام بنادیا تو زبردست معاشی حملہ کیا گیا جسے دیگر مسلمان ریاستوں کی بروقت مدد سے ناکام بنادیا گیا ورنہ اس میں کوئی بعید نہ تھی کہ ماضی کی طرح ترکی ایک بار پھر سے Sickman of Europe بن جاتا، آج سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پہ حملے کو لیکر شور مچا ہوا ہے کوئی اسے ایران سعودی تنازعہ کا نتیجہ قرار دے رہا ہے تو کوئی اقتصادی دھماکہ قرار دے رہا ہے اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ سعودی اقتصادی قوت پہ حملہ ہے تو بھی یہ طریقہ واردات ریاستوں کو تباہ کرنے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے اس غیراعلانیہ جنگ سے پاکستان بھی محفوظ نہیں اور گذشتہ بیس سال بالعموم دس سال بالخصوص سے پاکستان پر جنگ مسلط کی ہوئی ہے، پاکستان ایک طاقتور ریاست ہے ایٹمی طاقت ہے اس لیے براہ راست نشانہ بنانے کی ہمت نہ ہوئی تو طریق واردات بدل بدل کر حملے کیے جاتے رہے، پہلے تو پاکستان و پاکستانی عوام سے زبردستی کی ہمدردی جتا کر خفیہ میثاق جمہوریت کروایا گیا پھر ان کے زریعے ملک و قوم کو فریب دینے کا کام لیا گیا، بلاضرورت قرضے دے دے کر قرضوں کے انبار لگائے جاتے رہے قرضوں کے جال میں پھنسا کر ملکی وسائل پہ قابض ہونے کی کوشش کی گئی تو پاک فوج آڑے آگئی جس کے بعد سے فوج کیخلاف عوام میں نفرت پھیلانے کے لیے پروپیگنڈہ مہم شروع کروادی گئی جو آج بھی جاری ہے وگرنہ یہی فوج تھی جب تک دشمن قوتوں کی سازشیں ملک میں دوڑ رہی تھیں تو ماضی قریب کو کھنگالیں یہی لوگ جو آج ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر اگلتے نظر آرہے ہیں کل تک فوج کے حق میں ترانے پڑھتے تھے لیکن جیسے ہی ملکی سلامتی کے اداروں نے دشمن قوتوں پہ قابو پالیا تو یہی لوگ فوج کے دشمن ہوگئے حالانکہ ان کو تو فخر ہونا چاہئے تھا کہ ملکی سلامتی کے اداروں نے قربانیاں دیکر مشکلات جھیل کر ہمارے حصوں کی آگ اپنے سینوں پہ سلگواکر ملک و قوم کو خطرے سے محفوظ کرلیا ورنہ آج شام یا لیبیا یا یمن جیسے حالات ہوتے ہم اپنی ماوں بہنوں کو لیے لیے در در بھٹک رہے ہوتے کروڑوں لوگ بے موت مارے جاچکے ہوتے ایک وقت کی روٹی کے لیے ترسنا ہمارا مقدر ہوتا مگر یہ ملکی سلامتی کے ادارے ہی تھے جنہوں نے قربانیاں دیں سختیاں جھیل کر دشمن کو پسپا کردیا، اس خطرناک جال سے نکلنے میں عمران خان نے بھی بھرپور ساتھ دیا جب جب کسی ریاست نے اس جال سے نکلنے کی کوشش کی ہے تو اس کے سربراہ کو قتل کروادیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم ہاوس کی بجائے بنی گالہ شفٹ کیا گیا اور یہی وہ تلخ حقیقت ہے جسکی وجہ سے افواج پاکستان کیخلاف سخت پروپیگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے، اگرچہ یہ صلیبی جنگ اعلانیہ شروع کی گئی تھی مگر شدید ردعمل سے بچنے کے لیے اس کا طریق تبدیل کردیا گیا اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کا نام دے دیا گیا، اگر یہ جنگ دہشتگردی کیخلاف ہے تو ابتک اس جنگ کی لپیٹ میں صرف مسلمان ریاستیں ہی کیوں آئی ہیں اور مسلمان ریاستیں ہی عدم استحکام و دیگر خطرات کی لپیٹ میں ہیں، اگر یہ جنگ واقعی دہشتگردی کیخلاف ہوتی تو برما میں مسلمانوں پہ المناک و بھیانک ظلم و ستم کیخلاف کہیں نہ کہیں سے ایکشن ہوتا لیبیا پر صرف ایک دو واقعات کو بنیاد بناکر چڑھائی کردی گئی تھی جبکہ برما میں مسلمانوں کیساتھ کیے جانے والے ظلم و جبر سے کون واقف نہیں، اس کے علاوہ بھارتی ریاست میں مسلمانوں کیساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا جارہا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے RSS و دیگر سٙنگھ پریوار سے منسلک تنظیمیں ابتک پچاس لاکھ سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کرچکی ہیں مگر انہیں نہ دہشتگرد قرار دیا گیا نہ بھارت پر پابندیاں عائد کی گئیں، نہ ان پر کوئی عملی دباو بڑھایا گیا جبکہ مسلمانوں کیساتھ سلوک اس کے برعکس ہے ایک پلوامہ ڈرامہ رچا کر پاکستان پہ دباو ڈالا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں بھارتی حاضر سروس دہشتگرد رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو بھی کسی کے لیے کوئی تشویش کی بات نہیں، ایک کے بعد ایک مسلمان ریاست کی تباہی کے بعد بھی اگر یہی سمجھا جاتا رہا کہ یہ جنگ دہشتگردی کیخلاف ہے اور اس کا حصہ بنے رہے تو ایک ایک کرکے باری سب کی ہی آنی ہے کیونکہ یہ جنگ رہشتگردی کیخلاف نہیں بلکہ امت مسلمہ کے خلاف ہے اور صدر بش اعلانیہ کہہ گئے تھے کہ انہوں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کردیا ہے جو ابتک خاموش صلیبی جنگ کے طور پہ چل رہی ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں