عمران خان، مولانا اور مذہب کارڈ (ساجد خان)

بالآخر پاکستان تحریک انصاف کے پہلے سخت امتحان کا وقت آ ہی گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے 27 اکتوبر کو اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت وقت سے سوال بھی کر ڈالا کہ کنٹینر ہم لائیں یا حکومت وعدے کے مطابق خود فراہم کرے گی۔

دوسری طرف اس اعلان کے بعد حکومتی حلقوں میں کھلبلی کے آثار نمایاں نظر آ رہے ہیں،شیخ رشید اور فردوس عاشق اعوان سے لے کر فیصل واڈا تک،سب کام چھوڑ کر مولانا فضل الرحمن کے خلاف بیانات دینے میں مصروف ہیں جبکہ مولانا اس لاک ڈاؤن کے معاملے پر حد سے زیادہ پر اعتماد نظر آتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کا ایک بڑا ووٹ بینک کے ساتھ ساتھ فین کلب بھی ہے۔سینکڑوں مدارس کے طلباء مولانا کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ تم مولانا کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہو تو میرا ماننا یہی ہے کہ مولانا واقعی میں ایک مدبر سیاست دان ہیں،کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور اقتدار میں رہنا بھی نہایت پسند ہے مگر ان تمام خامیوں کے باوجود ان میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں۔

اول تو یہ ہے کہ اگر کسی حکومت کے اتحادی بنتے ہیں اور اپنے اقتدار کا حصہ لینے کے بعد اپنی اتحادی حکومت کے ساتھ قابل تعریف حد تک مخلص رہتے ہیں جبکہ دوسری مذہبی جماعتیں خصوصاً جماعت اسلامی آدھے اقتدار کی مالک ہونے کے باوجود بھی کبھی اتحادی حکومت کا ساتھ نہیں دیتی بلکہ ان کے بیانات ہمیشہ حکومت کے خلاف ہی نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں دو جماعتیں ایسی ہیں جو اقتدار میں رہ کر بھی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں اور کبھی بھی مطمئن نظر نہیں آتیں،جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم۔

مولانا اس معاملے پر تعریف کے حقدار ہیں کہ وہ کم از کم اس معاملے میں منافقت سے کام نہیں لیتے۔
مولانا دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان تحریک طالبان نے جو ملک میں تباہی مچائی،وہ بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی تھی مگر مولانا نے دہشتگردی کو کبھی سپورٹ نہیں کیا شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا اور اس کی جماعت دہشتگردی کا نشانہ بنتی رہی۔

حال ہی میں چمن میں جماعت کے ڈپٹی سیکرٹری مولانا حنیف کی بم دھماکے میں شہادت،سندھ کے صدر مولانا خالد سومرو کا قتل،کراچی میں مفتی شامزئی کے قتل کے علاوہ کئ دوسرے رہنماؤں کے قتل کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن پر تین خودکش حملے یہ ثابت کرتے ہیں کہ مولانا کی سیاست پر تو اعتراض کیا جا سکتا ہے مگر ان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا کہ دہشتگردی کا براہ راست نشانہ بننے کے باوجود بھی انہوں نے ملک میں تشدد کی حمایت نہیں کی۔

اس کے علاوہ مستقل قریب کی سیاست میں مولانا ہی تھے جنہوں نے ہر مکتبہ فکر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا،اس کارنامے کو سیاسی یا ذاتی مفادات کا نام دیں یا کچھ اور لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے مذہبی منافرت کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا،اب اگر کوئی یہ کہے کہ اس کا مقصد صرف ووٹ حاصل کرنا تھا تو اس پر سوال اٹھتا ہے کہ ایم ایم اے کا زیادہ اثر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں تھا جہاں اہل تشیع کی تعداد نا ہونے کے برابر تھی،اب اگر اہل تشیع کی جماعتوں کے بجائے ان کی مخالف جماعت سپاہ صحابہ کو اتحاد میں شامل کر لیا جاتا تو شاید مولانا کو زیادہ سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا تھا مگر انہوں نے ووٹوں پر اصولی سیاست کو ترجیح دی اور کسی بھی انتہا پسند تنظیم کو اتحاد میں شامل کرنے سے انکار کر دیا،جو کہ واقعی میں قابل تعریف عمل ہے۔
موجودہ حکومت کے خلاف جب سے مولانا نے تحریک چلانے کا آغاز کیا ہے،اس وقت سے حکومت ان پر مذہب کارڈ استعمال کرنے کا الزام لگا رہی ہے اور اسے ایک خطرناک حرکت گردانتے ہوئے مسلسل مذمت کر رہی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں میں مذہب کارڈ کا بے دریغ استعمال کیا گیا جو کہ انتہائی خطرناک اور افسوسناک عمل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک مذہبی سیاسی جماعت اگر مذہب کارڈ استعمال نہیں کرے گی تو اس کا سیاست میں رہنے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے گاہے بگاہے اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کرتی آ رہی ہے اور آج جب ان کے خلاف وہی ہتھیار استعمال ہونے جا رہا ہے تو انہیں یہ عمل غلط نظر آ رہا ہے۔

گزشتہ حکومت میں مسلم لیگ نواز کے خلاف مذہب کارڈ استعمال کرنے کا آغاز پاکستان تحریک انصاف اور ان کے اتحادی شیخ رشید نے ہی کیا اور مسلم لیگ نواز کو قادیانی نواز جماعت ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

گزشتہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی مہم اور انتخابی پوسٹرز میں خود کو ختم نبوت کے محافظ کے طور پر پیش کیا جبکہ مسلم لیگ نواز کو یہودی اور قادیانی ایجنٹ قرار دیا جاتا رہا۔ عمران خان نے حکومت میں آتے ہی اپنے اقتدار کو ریاست مدینہ کے مساوی قرار دینا شروع کر دیا تھا،کیا یہ مذہب کارڈ نہیں تھا ؟

خود کو مسلم امہ کا ترجمان قرار دینا بھی مذہب کارڈ استعمال کرنے کا ہی ایک حصہ ہے۔ گزشتہ سات سالوں کے دوران مولانا پر تنقید کرنے کے لئے بھی مذہب کا استعمال کیا گیا کہ یہ عالم دین نہیں ہے بلکہ علماء کرام کے نام پر دھبہ ہے، یہ اسلام کو بدنام کر رہا ہے یا اسلام کے نام پر ذاتی مفادات دیکھ رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف جتنی بھی تقاریر کی گئیں،اس میں مذہب کا ہی استعمال کیا گیا اور آج تک کرتے چلے آ رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں مولانا سمیع الحق کے مدارس کو کروڑوں روپے کی سرکاری امداد دینا بھی مذہب کارڈ ہی میں شمار ہوتا ہے۔
مذہب کارڈ استعمال کرنا جہاں مذہبی جماعتوں کے لئے غلط ہے وہیں سیاسی جماعتوں کے لئے بھی جائز نہیں ہے اور جب آپ سیاسی اختلافات پر کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کے خلاف مذہب کا استعمال کریں گے تو پھر آپ کو بھی اس بات کی توقع کرنی چاہئے کہ یہ ہتھیار کبھی آپ کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

میں نے گزشتہ سال بھی اس موضوع پر لکھا تھا کہ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت اپنے مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کرتی آئی ہے یہاں تک کہ مخالف جماعت کے خلاف بھی مذہب کارڈ استعمال کرنا ہمارے سیاستدانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے مگر بعد میں وہی جماعتیں مکافات عمل کا شکار بھی ہوئیں۔
مسلم لیگ نواز نے پیپلزپارٹی کے خلاف مذہب کارڈ استعمال کیا،جس کے نتیجے میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن جب اقتدار میں آۓ تو ان کے خلاف مذہب کارڈ استعمال ہوا،جس میں رہنماؤں پر حملے کۓ گۓ اور اس دوران پاکستان تحریک انصاف بھی مذہب کارڈ استعمال کر کے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سبق اس وقت حاصل کرتے ہیں جب ہم پر خود مصیبت نازل ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز گزشتہ حکومت میں ہی سمجھ چکے تھے کہ سیاست میں مذہب کارڈ استعمال کرنا غلط عمل ہے کیونکہ وہ اس سیاست کا شکار ہو چکے تھے مگر پاکستان تحریک انصاف کو یہ سب نہایت اچھا لگ رہا تھا مگر آج اس جماعت کو وہی ہتھیار غلط اور خطرناک نظر آ رہا ہے کیونکہ ان کے خلاف استعمال ہونے جا رہا ہے لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے کل جو بویا تھا،آج اس کے کاٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

جب آپ مسلسل مذہب کارڈ استعمال کرتے آ رہے تھے تو اب آپ کو اس کا سامنا بھی کشادہ دل سے کرنا چاہئے البتہ اس بات سے سبق بھی حاصل کرنا چاہئے کہ اپنے چھوٹے مفادات کے لئے مخالف کو کافر یا ایجنٹ قرار نہیں دینا چاہئے ورنہ اس آئینہ میں تمہارا چہرہ بھی ویسا ہی نظر آۓ گا جیسا تمھیں دوسروں کا نظر آتا تھا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں