آزادی مارچ ایک عذابِ دانشِ حاضر (انشال راؤ)

اس وقت جو ملکی و علاقائی صورتحال ہے اس کی تفصیل میں جائے بغیر ہر صاحب نگاہ آگاہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے اعلان کے بعد جو نقشہ بنتا نظر آرہا ہے وہ مختلف اعتبارات سے وہی نقشہ کھنچتا دکھائی دے رہا ہے جس کی کوشش میں دشمن قوتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا تھا مگر افواج پاکستان نے ہر سطح پر ان کے سارے خواب چکنا چور کردئیے تھے وہی افتراق، خانہ جنگی، سیاسی عدم استحکام، اختلافات ایک بار پھر سے اٹھ کھڑے ہونے کو ہیں، مسئلہ کشمیر اور بھارت کی ممکنہ جارحیت کے پیش نظر جب قوم کو باہمی اتحاد کی اشد ضرورت ہے تو ایسے میں اس کے برعکس صورتحال سے صرف دشمن ہی مستفید ہوسکتا ہے نہ کہ ملک و قوم، یہ تو وہی بات ہوگئی جیسا کہ اقبال نے فرمایا “کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق نخچیری” یعنی خود دشمن کو موقع فراہم کیا جارہا ہے کہ ہمیں شکار کرلیا جائے، فوری طور پر اس کا ایک نتیجہ تو سامنے آچکا ہے کہ پاکستان کی توجہ کشمیر کے مسئلے سے ہٹ کر مولانا کے دھرنے پہ مرکوز ہوگئی ہے اور کرپٹ عناصر کو بھی وقتی طور پر ریلیف مل گیا ہے، پاکستانی سیاسی تاریخ کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومتیں گرانے میں اہم کردار مذہبی جماعتیں ہی ادا کرتی رہی ہیں، ایوب خان کی حکومت کے خلاف جو تحریک چلی اس میں مذہبی عناصر پیش پیش تھے پھر بھٹو کے خلاف جو تحریک چلی وہ بھی مذہبی جماعتیں ہی لیڈ کر رہی تھیں، اس کے بعد نوازشریف و بینظیر کی حکومتیں گرانے میں بھی مذہبی جماعتوں کا اہم کردار رہا حتیٰ کہ موجودہ دہائی کے دھرنے بھی مذہبی طبقوں کی طرف سے ہی دئیے گئے، مذہبی جماعتوں کے اس فعل سے کبھی اسلام کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا نہ ہی مذہبی جماعتوں کو کچھ ہاتھ لگا ہمیشہ نتیجہ یہی نکلا کہ فائدہ تیسری قوت نے اٹھایا جبکہ مذہبی طبقے نے تو صرف طفیلی کردار ہی ادا کیا اور ہمیشہ طفیلئے کی حد تک ہی رہے، مولانا فضل الرحمان کا موجودہ آزادی مارچ کا اعلان حالات و واقعات کے پیش نظر انتہائی مشکوک حیثیت سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں رکھا گیا ہے جب وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ میں عالمی قوتوں کو للکار کر آئے ہیں دوسری طرف چین اور امریکہ میں سرد جنگ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے چین کی جاری کردہ رپورٹ میں واضح طور پر زکر کیا گیا ہے کہ امریکہ Asia Pacific Military Alliance کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہے اور امریکی دفاعی ماہرین و تھنک ٹینک چین کے بڑھتے ہوے اثر رسوخ کو امریکہ کی چودھراہٹ کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں جس کے پیش نظر چین کو بلاک کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے امریکی ماہرین چین کو بحری راستوں کے زریعے بلاک کرکے چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے سرگرم ہے، CPEC امریکہ کے اس پروگرام کو ناکام بناسکتا ہے اسی لیے امریکہ کی خواہش یہی ہے کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو تاکہ CPEC کا منصوبہ کامیاب نہ ہو اور مولانا فضل الرحمان کا دھرنا جس کی حمایت میں وہ تمام گروہ بڑھ چڑھ کر چلے آرہے ہیں جو امریکہ کی ڈمی رہ چکے ہیں پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے مختلف بحرانوں کا شکار رہا ہے دنیا میں پاکستان کو Failed State کے طور پر لکھا جانے لگا تھا جسے Continuous Revolution کے تحت اور بیش قربانیاں دیکر افواج پاکستان نے بحرانوں سے نکال کر اپنے پیروں پہ لاکھڑا کیا، بہت سے جتھے رکاوٹ کے طور پر مقابل آئے مگر کوئی بھی ٹھہر نہ سکا لیکن اب جب ہر معاملہ بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے تو مولانا فضل رحمان صاحب ایک طفیلی بن کر اس Continuous Revolution کی راہ میں روڑے اٹکانے چلے آئے ہیں اگرچہ مولانا صاحب اسے مذہبی جنگ کا رنگ دیکر مذہب کارڈ استعمال کرنے کی پوری پوری کوشش کررہے ہیں لیکن اب حالات اس کے لیے سازگار نہیں کیونکہ ایک تو مذہبی طبقات ایک پیج پر نہیں دوسرا مولانا فضل الرحمان کی شخصیت پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں تیسرا انکے دھرنے کی وجہ اور اتحادی عوام کی نظروں میں مشکوک ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب سہاگن بنانے والے پیا حضرات کا آشیرواد بھی نہیں، اس لیے اس بار “عذاب دانش حاضر” کو مات ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اس اقدام سے مولانا کو تو کچھ حاصل نہیں ہونا البتہ وہ حلقے جو ملکی عدم استحکام کو دیکھنے کے منتظر تھے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرینگے، بھارت جوکہ پہلے سے ہی موقع کی تلاش میں ہے اور جنگ کے لیے حیلے بہانے ڈھونڈتا پھر رہا ہے اس کے لیے ایک بار پھر Chance of the Century مہیا کردیا ہے بحالات موجودہ یہ اندیشہ محض وہمی اور خیالی نہیں ہے، حکومت گرانے کی آڑ میں لیکر دانش حاضر جو کھیل کھیل رہی ہے وہ ملک و قوم کے لیے تو عذاب دانش حاضر بن کر سامنے آرہی ہے، ستم بالا ستم کہ احتساب سے بچنے کے لیے اور کالے کرتوت چھپانے کے لیے “الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” کے مصداق جب مختلف ہتھکنڈے ناکام ہوگئے تو مولانا جیسے طفیلیے سامنے آرہے ہیں، اندازہ کیجئے کہ یہ پہلا موقع ہے جب مذہبی طبقے کے اندر سے ہی مولانا فضل الرحمان پہ شدید تنقید اور انہیں مشکوک نظروں سے دیکھا جارہا ہے اور جسے مولانا صاحب یہودی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں اس سے دشمنان پاکستان سب سے زیادہ بیزار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ایسے میں مولانا صاحب کو اپنے فیصلے پر اس لیے بھی نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ مولانا صاحب تو ایک ہیں لیکن عوام میں سارے مذہبی طبقے کے لیے منفی سوچ جنم لے گی اور حکومت کو چاہئے کہ اگر مولانا صاحب ڈھٹائی پر قائم رہتے ہیں تو مفتی تقی عثمانی، طارق جمیل و دیگر اہم مذہبی عمائدین کو آگے لاکر عدم استحکام پیدا کرنے والوں سے عوام کو نجات دلائے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں