ترکی آپریشن اور علاقائی استحکام (انشال راؤ)

خلیج کی جنگ کو عراق کے صدر صدام حسین نے “ام المحارب” قرار دیکر جنگوں کے سلسلے کا نقطہ آغاز قرار دیا تھا ایک عرصے تک صدام حسین امریکہ و حواریوں کے گلے کی ہڈی بنا رہا جو نہ نگلی جاتی تھی نہ اگلی، امریکہ نے بڑی مکاری سے عربوں کے دفاع کی آڑ میں مشرق وسطیٰ میں اپنے ملٹری بیس بنائے جو صدام حسین کے بعد عربوں کی تباہی ثابت ہورہے ہیں، امریکہ نے اقوام متحدہ کی مخالفت کے باوجود عراق پر حملہ کیا صدام حکومت کا سورج غروب ہوتے ہی جو وسائل لوٹنے تھے لوٹے اور کچھ عرصے بعد عراق کو آگ و خون میں جلتا چھوڑ کے چلتا بنا، یہ آگ عرب اسپرنگ کے ڈرامے کی آڑ میں یمن، شام، لیبیا و دیگر عرب ریاستوں تک پھیل گئی، اندازہ کیجئے کہ جو ہجوم عرب اسپرنگ کے نام پہ جمع ہوے وہ کس طرح مسلح فوج کی شکل اختیار کرگئے، کہاں سے انہیں اسلحہ و فنڈز ملے، ایک دم منظم اور ٹرینڈ لوگ کیسے ایک جماعت کی صورت سامنے آتے گئے، لیبیا جو کہ اسرائیل کے گلے کی ہڈی بنا ہوا تھا جو فلسطین کے مسئلے کو لیکر اسرائیل کا سب سے بڑا حریف تھا اسے امریکہ نے R2P کی آڑ لیکر اس لیے تباہ کیا کہ معمر قذافی باغیوں پر کنٹرول کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا، لیبیا میں بھی امریکہ نے وہی کیا، خانہ جنگی میں جھونک کر نکل لیا، یمن کا حال سب کے سامنے ہے، شام اس وقت عالمی قوتوں کے مفادات کا گڑھ بنا ہوا ہے، جہاں ایک طرف بشارالاسد کی وفادار فوج ہے تو دوسرا گروہ امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلنے والے کرد باغیوں پہ مشتمل ہے اور تیسرا آئی ایس و دیگر جہادی تنظیمیں ہیں، کردوں کی کل آبادی تقریباً ساڑھے تین سے چار کروڑ تک ہے جوکہ ترک اور عراق کی آبادی کا 20 فیصد جبکہ ایران و شام کی کل آبادی کا دس فیصد ہیں، کردوں کے شروع سے ہی چاروں ملکوں سے تنازعہ چلتا آرہا ہے، کردوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ آزادی یا خودمختیاری دی جائے ورنہ وہ مسلح جدوجہد جاری رکھیں گے، یوں تو کردوں کی بہت سی مسلح تنظیمیں ہیں مگر شام و ترک میں سرگرم گروہ کردش ورکرز پارٹی PKK اور پیپلز پروٹیکشن یونٹ YPG اہم ہیں، ترکی کردوں سے تنازعات کو نمٹانے کے لیے سالوں سے کوشاں ہے اس ضمن میں 2006 سے خفیہ بات چیت چلتی رہی جسے 2013 میں اعلانیہ شروع کیا گیا، ترکی نے بات چیت کے زریعے کردوں سے معاملات طے کرنے کے لیے 2013 سے 2015 تک ہر ممکن سنجیدہ کوشش کی اس دوران دونوں فریق کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ بھی رہا لیکن جولائی 2015 میں کردوں نے امریکی سپورٹ ملنے کے بعد ترکی سے جنگ بندی ختم کرکے ترکی میں دہشتگردانہ کاروائیاں شروع کردیں تو دوسری طرف شام کی صورتحال کا فائدہ اٹھاکر امریکی شہ پر SDF کے نام IS و دیگر جہادی تنظیموں کے خلاف لڑنا شروع کردیا، کرد اس موقع کو غیبی مدد سمجھ کر کردستان کے خواب کو تعبیر ہوتا دیکھ رہے تھے، کرد ترکی میں HDP کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے ہیں اور ترک صدر طیب اردگان کے سخت خلاف ہیں لیکن اس کے باوجود کردوں کی ترکی کے اندر متعدد دہشتگردانہ کاروائیوں و مشکوک سرگرمیوں کے جواب میں عسکری قیادت کی متعدد بار کی آپریشن کی درخواستوں کو مسترد کرکے بات چیت سے مسئلے کا حل نکالتے ہوے کردوں کو قومی دھارے میں لانے کی بارہا کوشش کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ YPG اور PKK کے رہنماوں کو انقرہ میں بہت سے موقعوں پر مدعو کرکے اس ناختم ہونے والی جنگ سے چھٹکارا چاہتے رہے، امریکہ نے بھی 2019 میں ترک کرد معاملات کو کسی نتیجے پہ پہنچانے کی کوشش کی لیکن کردوں کی ڈھٹائی اور گولن مافیا کی وجہ سے بے نتیجہ ختم ہوگئے، شمال مشرقی شام کے ایک بڑے حصے پر کرد جنگجووں کا کنٹرول ہے، امریکہ نے اچانک شامی علاقوں سے اپنے فوجیوں کو نکالنے کا اعلان کیا جس کے بعد ترکی نے کردوں پر چڑھائی کردی، دنیا اسے امریکہ کی طرف سے ترکی کو گرین سگنل کہہ رہی ہے جس کو لیکر صدر ٹرمپ پر ہر طرف سے شدید تنقید ہورہی ہے حتٰی کہ اس کے معتمد خاص لوگ بھی ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ “کرد ہمارے دیرینہ یا اچھے اتحادی نہیں انہوں نے جنگ عظیم دوم میں ہمارا ساتھ نہیں دیا نہ ہی نارمنڈی میں اور ان کے اتحاد کو موقع پرست و رینٹل سروس قرار دیتے ہوے کہا کہ ترکی انسانی حقوق کی پاسداری کا خیال رکھے ورنہ اس پر سخت پابندیاں عائد کردینگے” اس کے علاوہ دنیا اسے علاقائی استحکام کے لیے خطرناک قرار دے رہی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ کردوں کی غیرموجودگی میں آئی ایس ایک بار پھر سے اٹھ کھڑی ہوگی مزید یکہ ان کے مقید آئی ایس قیدی رہا ہوجائینگے لیکن درحقیقت ترکی نے آنے والی صورتحال کے پیش نظر پہلے ہی حملہ کرکے ترک بارڈر کے ساتھ شامی پناہ گزینوں کو بسانے کا پروگرام بنایا ہے جس سے یہ جنگ ترکی میں داخل ہونے سے بچ جائیگی اور علاقے میں بھی استحکام پیدا ہوگا، دوسری طرف اس حملے کی آڑ میں ترک مخالف گروہوں نے اس حملے کو مسلمانوں پہ حملے کا رنگ دیکر طیب اردگان کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں جوکہ حقائق کے منافی ہے کیونکہ کرد باغی اپنے مفاد کے لیے پہلے امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے تو اب بشارالاسد کے لیے رینٹ اے سروسز فراہم کرنے پہ آمادہ تھے جس کے پیش نظر طیب اردگان کا یہ قدم لاکھوں انسانوں کی زندگی بچانے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں