امریکی تین لاڈلے۔۔۔ضیاء، صدام اور اردگان! (ساجد خان)

شام میں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو ترکی نے اس جنگ میں سہولت کار کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔

یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ شام کے عام مظاہرین اچانک ہی اتنے تربیت یافتہ جنگجو کیسے بن گئے کہ چند ہفتوں میں ہی فوج کو شکست دے کر علاقے پر علاقہ قبضہ میں کرتے گئے۔

عالمی میڈیا نے یہ تو دکھایا کہ داعش کے پاس سینکڑوں ٹویوٹا گاڑیاں موجود ہیں مگر کبھی یہ نہیں بتایا کہ اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں فراہم کس نے کیں اور یہ کس راستے سے داعش کے علاقوں میں پہنچیں۔
اس سوال کا نہایت آسان سا جواب ہے کہ شام کے دو پڑوسی ممالک ترکی اور اردن نے اپنی سرحدیں دہشتگردوں کے لئے کھول رکھی تھیں اور داعش کے مقبوضہ علاقوں میں جانا اتنا آسان تھا کہ برطانیہ سے تین لڑکیوں کی گمشدگی کی خبر آتی ہے جو جلد ہی ملکی سطح کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں جب حکومت نے یہ پتہ لگایا کہ وہ لڑکیاں لندن ائر پورٹ سے ترکی روانہ ہوئی ہیں تو فوراً ہی ترکی کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطہ کر کے لڑکیوں کو واپس لانے میں مدد کی درخواست کی اور چوبیس گھنٹے بعد ترکی جواب دیتا ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے کیونکہ لڑکیاں شامی علاقے رقہ پہنچ چکی ہیں۔ داعش ہو یا النصرہ ان سب کے پاس جدید ترین اسلحہ اور جنگجو براستہ ترکی ہی پہنچا کرتے تھے۔

دہشتگردوں کے تربیتی کیمپ بھی ترکی اور اردن کے سرحدی علاقوں میں قائم تھے جہاں امریکہ اور نیٹو انہیں تربیت فراہم کرتے تھے۔

اس دوران بہت سے ترک صحافیوں نے اپنی رپورٹ میں ثبوت کے ساتھ انکشاف کیا کہ شام سرحد پر ترک انتظامیہ بذات خود دہشتگردوں کو اسلحہ سپلائی کر رہی ہے اور ایک دہشتگرد کا بغیر ویزے کے سرحد پار کرنا، عام شہری کا ویزے کے ساتھ سرحد پار کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہوتا تھا، یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے سب صحافی کسی نا کسی حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔

ان وقتوں میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان امریکہ اور یورپ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، انہیں غیر ملکی دوروں پر وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ امریکہ کے دورے کے دوران اردگان کے محافظوں کو مظاہرین پر تشدد کرنے کی چھوٹ بھی میسر تھی۔
ان سب حالات کے بعد اردگان بھی خود کو ویسے ہی افضل ترین مخلوق سمجھنے لگ چکا تھا جیسے پاکستان کے آمر ضیاءالحق اور عراق کے صدام حسین کو خوش فہمی لاحق ہوئی تھی۔

اردگان بھی آج وہی غلطی دہرانے جا رہا ہے جو دوسرے لاڈلوں نے دہرائی تھی۔
افغانستان میں سویت یونین امریکہ جنگ کے دوران پاکستان اور ضیاءالحق کا مقام بھی وہی تھا جو چند سال قبل ترکی اور اردگان کا تھا۔

ڈالروں کی بارش ہو رہی تھی، ضیاءالحق کے امریکی دورے پر انہیں خصوصی اہمیت دی جاتی، جس سے ضیاءالحق بھی خود کو افضل سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا مگر جوں ہی سویت یونین ٹوٹا اور امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نا رہی تو سب نے آنکھیں پھیر لیں، پاکستان دہشتگرد ملک بن گیا اور ضیاءالحق ایک آمر۔

ضیاءالحق نے پرانی خوش فہمیوں کی بنیاد پر امریکہ سے ٹکرانے کی روش اپنائی مگر اس کا انجام وہی ہوا جو مافیا کے اصولوں کے مطابق ہوا کرتا ہے کہ کام نکل جانے کے بعد فوراً ہی اپنے بندے کو مار دیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی خطرہ نا بنے۔

صدام حسین نے جب ایران پر حملہ کیا تو عرب حکمرانوں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ کی آنکھوں کا بھی تارا بن گیا۔
پوری دنیا سے عراق کو جدید اسلحہ کے ساتھ تباہی پھیلانے والے بموں کے تحفے بھی دیئے جاتے رہے۔ جن کا صدام حسین نے ایران پر بے دریغ استعمال کیا۔ صدام حسین کو عرب قوم کی شان قرار دیا جاتا رہا۔

صدام حسین بھی خود کو حقیقت میں ایک ہیرو اور عرب قوم کا لیڈر سمجھنے لگ چکا تھا اور اسی غرور میں ایسے اقدامات کر بیٹھا کہ جس سے صدام حسین کو کاغذی شیر بنانے والی طاقتیں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئیں کہ ایک بار پھر مافیا طرز پر اپنے بندے کو کام ختم ہونے کے بعد مار دینے کا وقت ہو چکا ہے۔اس لئے جوں ہی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی وہ آمر اور ظالم قرار پایا اور نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی امریکہ اور یورپ نے عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا آغاز کر دیا۔

کل تک عرب قوم کی شان سمجھا جانے والا صدام حسین، چند سالوں میں ہی عرب قوم کا دشمن نظر آنے لگا اور معاملات اس حد تک پہنچ گئے کہ جو ممالک ایران عراق جنگ میں صدام حسین کے ساتھ تھے، انہوں نے بخوشی امریکہ کو عراق پر حملے کے لئے ہوائی اڈے اور زمینی راستہ عطا کیا۔

شام کی خانہ جنگی میں ترکی اور اردگان کے ساتھ بھی یہی پالیسی اپنائی گئی۔ میں نے جنگ کے آغاز میں ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اس جنگ میں ترکی پاکستان کا کردار ادا کر رہا ہے جبکہ اردگان، ضیاءالحق کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور اس کا انجام وہی ہو گا جو پاکستان اور ضیاءالحق کا ہوا ہے۔

آج اردگان شام میں آپریشن کر کے وہی غلطی کر رہا ہے جو صدام حسین نے کویت پر حملہ کر کے کی تھی۔

امریکہ نے ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کا آغاز کر دیا ہے جبکہ یورپ نے بھی اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے ختم کر دیئے ہیں۔ترکی کی معیشت جو پہلے ہی ڈانواڈول تھی اب مزید خراب ہوتی جائے گی اور اس کا نتیجہ وہی ہو گا جو پاکستان بھگت رہا ہے۔

چار دہائیاں بعد ترکی کے حکمران صفائیاں دیتے پھر رہے ہوں گے کہ شام میں ترکی کی مداخلت غلطی تھی جو ہم نے امریکہ کے کہنے پر کی مگر عالمی سیاست میں وقت گزر جانے کے بعد پچھتانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔

مسلم امہ کے حکمران اپنے ذات کے چند مفادات اور امریکہ کی آشیرباد کی ہوس میں غلطیوں پر غلطیاں کرتے رہتے ہیں، خود اس دنیا سے چلے جاتے ہیں مگر کروڑوں شہریوں کے لئے مصیبتوں کے انبار چھوڑ جاتے ہیں۔

کاش کہ ضیاءالحق افغانستان میں فریق بننے کی غلطی نا کرتا یا کاش کہ صدام حسین پاکستان اور ضیاءالحق کے انجام سے سبق سیکھ لیتا یا اردگان ان دونوں کے عبرت ناک انجام کو دیکھ لیتا لیکن کسی بھی حکمران نے سبق سیکھنے کی عادت ہی نہیں اپنائی۔

گڑھے کی طرف بڑھتے ہی جاتے ہیں حالانکہ اپنے سے آگے والوں کو گڑھے میں گرتا دیکھ کر بھی انجام سے سبق نہیں سیکھتے کیونکہ ان کے فیصلوں میں اپنا وقتی مفاد پنہاں ہوتا ہے نا کہ قوم کے مفادات کے مطابق فیصلے کۓ جاتے ہیں۔

شاید مسلم امہ کے حکمرانوں کے حالات کو دیکھ کر ہی کسی سیانے نے کہا تھا کہ جب تک بیوقوف اس دنیا میں زندہ ہیں، ٹھگ کبھی بھوکا نہیں مر سکتا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں