ضلع کرم میں دہرے قتل کا پس منظر، خوف کی نئی لہر! (احمد طوری)

تقریباً ڈیڑھ، دو سال پہلے اپر کرم پاراچنار کے ایک نواحی گاؤں سے دو کم سن بچیاں کسی طرح لوئر پہنچ گئیں اور گاؤں گاؤں گھمانے کے بعد دو لڑکوں سے بیاہی گئیں۔ کمسن بچیوں کا تعلق اہل تشیع سے جبکہ لڑکوں کا تعلق اہل سنت برادری سے ہے۔

اب یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، سابق کرم ایجنسی اور حال ضلع کرم میں شیعہ سنی رشتے پہلے بھی ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہونگے۔ مجھے پتہ ہے کتنی اہل سنت کی لڑکیاں اور خواتین کی شادیاں “کسی نہ کسی” طرح اہل تشیع خاندانوں سے ہوئی ہیں۔
لیکن جب دس لاکھ کی آبادی والے علاقے میں ہر قسم کے لوگ رہتے ہوں اور ذاتی دشمنی، مسلکی دشمنی اور مذہبی دشمنی اپنی عروج پر ہوں۔ تو کچھ رشتے ناگوار گزرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، پاراچنار میں اہل سنت کی ایک لڑکی بی بی حواء کسی طرح اہل تشیع لڑکے نواب علی کے پاس پہنچی اور انہوں نے شادی کرلی۔ بہت سے جرگوں اور عدالتی فیصلوں کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ شادی بالکل درست ہے لیکن اس شادی سے کرم میں فساد کا خدشہ ہے لہذا لڑکی کو طلاق دے کر والدین کے حوالے کی گئی اور معاملہ وہیں ختم ہوا۔

دوسرا واقعہ صدہ سے ایک لڑکی بھاگ کر بوشہرہ کے اہل تشیع گھر پہنچی تو انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی سمیت ایم این اے ساجد طوری اور سینیٹر سجاد طوری نے فوری مداخلت کرتے ہوئے لڑکی حکومت کے حوالے کی۔ یہ واقعہ اہل تشیع بچیوں کے ویڈیو شئیر ہونے کی فوراً پیش آیا تھا۔
اب اہل تشیع بچیوں کے معاملے میں بھی یہی عمل دہرانا چاہئے تھا لیکن اہل سنت کے بعض داعشوروں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ اہل تشیع کی بچیاں پہلی بار ہاتھ لگی ہیں لہذا انہوں انکی ویڈیوز بنائیں اور فیس بک اور یوٹیوب پر ڈال دیں جس سے بچیوں کے والدین سمیت پوری برادری اور علاقے کے سر شرم سے جھک گئے۔ یہ کسی طور بھی قبائلی معاشرے میں قابل قبول نہیں یہ پشتونوالی کے بھی خلاف تھا، یہ انسانیت کے بھی خلاف عمل تھا۔
ان مذہبی جنونیوں کو ایک لمحے کیلئے ضلع کرم پر رحم نہیں آیا کہ اس سے آگ بھڑک سکتی ہے؟ ان درندہ صفت لوگوں کو یہ بھی احساس نہیں ہوا کہ ان بچیوں کے والدین اور بھائی بھی ہیں؟ اور آخر میں ان ظالموں کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ یہ بچیاں اب انکی ناموس بن گئی ہیں انہوں نے ان سے شادی کی اور پھر اپنی بیوی کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا، فیس بک اور یوٹیوب پر شئیر کی جس سے علاقے پر شدید صدمے کی کیفیت طاری ہوئی۔

قبائلی روایات میں ایک خاتون پر گھر اور خاندان تو کیا پورا علاقہ بھی قربان کرنا پڑے تو کوئی دریغ نہیں کرے گا اور سو سال میں بدلہ لیا تو بھی جلدی تصور کی جاتی ہے یعنی یہ صدیوں کی جنگ ہے اور ضلع کرم کا اہل تشیع پشتون طوری قبیلہ اس جنگ سے چار صدیوں پہلے اسی طرح کا جنگ لڑ کر پورے ضلع پر قابض ہوئی ہے جب طوری قبیلے کے ایک خاتون کو بنگش قبیلے کے کچھ افراد نے چھیڑنے کی کوشش کی تھی۔ تب طوری قبیلے کے افراد نے بنگش قبیلے پر بھرپور حملے کئے اور کئی عشروں تک لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں بنگش قبیلے کو ضلع کرم سے بے دخل کردیا۔ آج بھی جو بنگش ضلع کرم میں آباد ہیں انہوں نے اہل تشیع “مذہب” قبول کیا اور طوری قبیلے نے مدینہ منورہ ہجرت کی طرز پر اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگش قبیلے کو اپنا بھائی تسلیم کیا جو بھائی چارہ آج تک قائم و دائم ہے۔

بات وہی کہ جن بچیوں کی ویڈیو شئر کی گئی وہ بیاہی گئیں اور معاملہ بالآخر پاراچنار میں عدالت پہنچ گیا۔ اہل سنت کے دو افراد جو لڑکوں کے ماموں اور ماموں کا بیٹا بتائے جا رہے ہیں جن سے بچیاں بیاہی گئی ہیں، کیس کے سلسلے میں پاراچنار عدالت پہنچے۔ پاراچنار شہر سے صدہ قصبے واپسی پر تاک میں بیٹھے ہوئے نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے دونوں افراد کو قتل کیا۔ اب یہ ایک ذاتی دشمنی تھی! بچیوں کے خاندان نے بدلہ لیتے ہوئے قتل کیا تھا جو عدالت میں زیر تفتیش ہے۔

ضلع کرم کے انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی نے حکومت سے تعاون کا فیصلہ کرتے ہوئے قاتلوں کو پکڑنے کی اجازت دے دی۔

ادھر مقتولین کے جنازے نواحی قصبے صدہ بھیج کر ضلعی انتظامیہ نے فاش غلطی کی۔ مقتولین کو آبائی علاقے منڈہ پہنچا کر دفنانا چاہیے تھا۔ صدہ قصبے میں ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل کو مذہبی رنگ دے کر لاشوں کو سڑک پر لاکر سپاہ صحابہ اور دیگر شدت پسند مشران نے احتجاج شروع کیا اور راستے میں مسافر گاڑیوں کو معاویہ چوک پر روک کر توڑ پھوڑ کی اور بالآخر آگ لگائی جبکہ مسافروں میں سے بعض کو زد وکوب کیا اور کچھ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ خوش قسمتی سے مسافروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ورنہ اس جنگ کو یہیں نہیں روکنا تھا، اس کے بدلے میں اپر کرم میں اہل سنت کے لگ بھگ سو افراد پکڑے جا چکے تھے۔ لیکن انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے تمام افراد اپنے ہاتھ میں لیئے اور حکومت کے حوالے کئے گئے۔

صدہ میں جلاؤ گھراؤ، اور فساد کیخلاف پاراچنار میں شدید احتجاج ہوا، احتجاج میں سیاسی و سماجی اور مذہبی تنظیموں سمیت ہر طبقہ نے بھرپور شرکت کی۔ احتجاجی جلوس سے مختلف مشران قوم اور سیاسی و مذہبی لیڈروں نے صدہ میں اشتعالی انگیزی کو دہشتگردی سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت سے واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ دہرایا ہے اور واقعے میں ملوث غنڈوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

صدہ قصبہ دہشتگرد سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا گڑھ ہے لہذا یہاں بین الاقوامی شاہراہ مستقل خطرہ ہے۔ کسی بھی وقعے کو بنیاد بنا کر سپاہ صحابہ کے دہشتگرد شاہراہ بند کرکے ہزاروں مسافروں کی جان و مال خطرے میں ڈال دیتے ہیں لہذا عوام نے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ صدہ قصبے سے بائی پاس روڈ بنایا جائے تاکہ آئے روز مسافر اس اذیت سے چھٹکارا حاصل کرے۔

معاملہ ابھی شروع ہوا ہے، ختم نہیں۔ بچیاں ابھی تک واپس نہیں ہوئیں، جنہیں ہر حال میں واپس ہونا ہے۔ اگر واپس نہیں ہوتی تو قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ امن کے گہوارے ضلع کرم کے مشران، جرگہ اور انتظامیہ اس معاملے کو ختم کرسکتی ہے۔

اب بھی وقت ہے۔ بچیوں کو واپس کردیا جائے۔بالکل اسی طرح جس طرح اہل تشیع نے کئی مواقع پر اہل سنت کی بچیوں کو واپس کیا ہے اور اوپر مثالیں دی جا چکی ہیں۔ایک بات جو مجھے سوچ کر کچھ نہیں سمجھ آرہا وہ یہ کہ بچیاں واپس ہو کر زندہ بچیں گی؟ تاریخ اس حوالے سے اذیت ناک ہے۔ مردوں کی اس دنیا میں بچیوں اور خواتین کو معاف کرنا روایت نہیں۔ لیکن تاریخ بدل بھی سکتی ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں