مولانا نظریاتی جنگ جیت چکے! (آصف اقبال انصاری)

27 اکتوبر سے کراچی سے شروع ہونے والا “آزادی مارچ” تاحال اسلام آباد میں، بڑے آب وتاب سے جاری ہے۔ اعلان مارچ کے بعد حکومتی ایوانوں میں جو زلزلہ طاری ہوا، وہ بھی عوام نے دیکھا۔ اور آج اسلام آباد کی سرزمین پر جاری مارچ کے شرکاء کی تعداد سے بھی یقینا کوئی غافل نہیں ہوگا۔ موجودہ سیاسی صورت حال یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں سیاست اور سیاسی منظر نامے میں کوئی ذوق اور دل چسپی نہیں تھی۔ آج وہ بھی بہر صورت باخبر رہنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہر وقت کان کھڑے کیے نظر آتے ہیں۔ ہر ایک کی زباں پر یہ جملہ جاری ہے کہ ” آج کیا ہوا اور آئندہ کیا ہونے والا ؟؟” حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری اس سیاسی معرکے کا ونر کون ہوگا؟؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر نظریاتی طور پر مولانا فضل الرحمان اس معرکے کے ونر نظر آرہے ہیں۔ طاقت اور غرور کے نشے میں مست موجودہ حکومت کی زبان کو شروع دن سے لگام نہیں۔ ان میں بھی فواد چوہدری، فردوس صاحبہ کے کیا ہی کہنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں تو یہ کہا گیا کہ مولانا پانچ ہزار کا مجمع بھی نہیں لاسکتے اور کہاں یہ لاکھوں کا مجمع۔ کہنے والے بالآخر کہہ گئے کہ تعداد ان گنت ہے، شمار سے باہر ہے۔

اعلان مارچ کے بعد ہی مارچ کو ناکام کرنے کی کارروائیاں تیز کردی گئی تھیں۔ میڈیا کوریج پر پابندی، مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری اور بوکھلاہٹ میں حافظ حمد اللہ کی پاکستانی شہریت منسوخی جیسے بے وقوفانہ حرکت بھی سامنے آگئی۔ مگر 27 اکتوبر کے طلوع آفتاب نے ان تمام حکومتی ہتھکنڈوں کو زیر و زبر کردیا۔ اور تمام تر چالوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ ذہنوں میں سوال گردش کرتے رہے کہ آخر یہ ہے کیا؟ جلسہ ہے،مارچ ہے یا دھرنا۔۔۔۔ مولانا فضل الرحمان نے شرکا سے خطاب کے دوران اس سوال کا جواب دیتے کہا کہ ” یہ مارچ بھی ہے، دھرنا، بھی ہے اور جلسہ بھی۔

2014 اور 2019 کے دھرنوں کا اگر صاف نظروں سے معاینہ کیا جائے تو بھی فیصلہ مولانا کے حق میں آئے گا۔ کہاں وہ مخلوط ماحول اور موسیقی۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں یہ نماز و ذکر کا نورانی ماحول۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں وہ بدنظمی اور کہاں یہ سلیقہ مندی۔۔۔۔۔۔۔ کہاں وہ امن کے پرخچے اڑانے والے اور کہاں یہ پر امن ماحول بنانے والے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں وہ وہ اداروں اور صحافیوں کی عزتیں پامال کرنے والے اور کہاں یہ عزتوں کے محافظ، سچ تو یہ ہے کہ مقابلہ تو بنتا ہی نہیں۔

مارچ کی موجودہ صورت حال بزبان حال یہ کہہ رہی ہے کہ ” تم جتنا دباؤ گے ہم اتنا ہی ابھریں گے”۔ جس کا ان ظاہری آنکھوں نے مشاہدہ بھی کیا کہ حکومتی کوشش یہ رہی کہ تمام تر کوریج بند کردی جائے اور مولانا کہیں نظر نہ آئے مگر “جس کو رب بچائے اس کو کون مارے”۔ آج تمام چینلز پر مولانا ہی مولانا نظر آرہے ہیں۔

ان سارے حالات اور واقعات کا نتیجہ جو بھی ہو، حقیقت تو یہ ہے کہ “مولانا تو جیت گئے!!!”


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں