ہمارے اقبال نوجوانوں سے کیا چاہتے تھے؟ (آصف اقبال انصاری)

مصور پاکستان، مفکر نوجوان علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ کو ” شاعر مشرق ” کا بھی خطاب ملا۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ “علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

یوں تو اپنی شاعری کے ذریعہ مسلمانوں میں جو عقابی روح بیدار کی وہ اپنی مثال آپ ہے، مگر ایک مصلح اور مفکر ہونے کی حیثیت سے، اپنی شاعری کے ذریعہ سب سے زیادہ توجہ قوم کے یوتھ پر دی۔چوں کہ نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی ترین اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ اس حقیقت کا کوئی منکر نہیں ہوسکتا کہ عین انسانی نے جتنے انقلابات دیکھے ہیں ان میں نوجوانوں کا کردار نمایاں نظر آیا ۔اسی بنا پر اقبال کو بھی سب سے زیادہ اُمیدیں نوجوانوں سے ہی وابستہ تھیں۔نوجوانوں کے لیے علامہ نے ہمیشہ شاہین کا استعارہ استعمال کیا ہے۔وہ آرزو رکھتے تھے کہ اُمّتِ مسلمہ کے شاہین صفت نوجوان اُن کی فکر کو عام کرنے اور نظامِ زندگی کو اُس کے مطابق استوار کرنے کا ذریعہ بنیں۔ بالِ جبریل کے مندرجہ ذیل اشعار اقبال کی اس آرزو کی ترجمانی کرتے ہیں:
جوانوں کو میری آہ ِ سحرکر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے

کسی بھی تحریک ، انقلاب یازمانے کو نئی راہ پر ڈالنے میں اگر نوجوان دستہ اول میںہوں تو پھر تاریخ کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ، اسی لئے جب تقسیم ہند اورنئی سرزمین کی جستجو میں مسلمانان ہند صف بندی کرنے لگے تو علامہ محمد اقبال نے بھی اپنے خیالات کو نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچانے کی کوشش کی اور نوجوان نسل کے لیے اپنے افکار کی وہ شمعیں روشن کیں،جن کی روشنی میں نوجوانوں نے ایک نئے دور اورنئے سماج کی بنیاد رکھی۔ اقبال جانتے تھے کہ کسی بھی قوم کے جوانوں میں کسی بھی پیغام کو قبول کرنے کی نہ صرف صلاحیت ہوتی ہے بلکہ وہ اس پیغام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کیلئے کسی قسم کے سمجھوتے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ دراصل علامہ محمد اقبال کو نوجوانوں پر کامل یقین تھا، اسی لئے وہ دعائیہ لہجے میں کہتے تھے :
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر

ہمارےا قبال کیا چاہتے تھے؟؟علامہ اقبال نوجوان نسل میں ایک شاہین کی صفات کے حامل مرد مومن کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ نوجوانوں کو پُرہمت اور خود ختار دیکھنا چاہتے تھے۔وہ کچھ یوں چاہتےتھے کہ نوجوان وہ نوجوان بنیں جو مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں، خیالوں کی بلندی کے ساتھ کردار کے بھی بلند ہوں ۔ ، خود اعتمادی کو اپنا ہتھیار بنائیں، اور بالخوف و خطر اونچی اڑان بھر سکیں اور ستاروں پر کمندیں ڈال کر ستاروں سے بھی آگے جہانوں کے لیے لخت سفر باندھ سکیں کیونکہ:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں