سموگ، کسان اور حکومتی عدم توجہی! (ساجد خان)

پاکستان میں خصوصاً پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں آجکل سموگ کا قبضہ ہے،ہر طرف دھند نما دھواں اور شہریوں کے لئے مختلف بیماریوں کا موسم ہے۔ لاہور کا ہر شہری ان دنوں نزلہ، زکام اور الرجی کا شکار نظر آ رہا ہے۔

پنجاب حکومت نے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے ایک دن کے لئے لاہور کے تمام سکول بند کرنے کا اعلان کر دیا گویا سموگ صرف سکول یونیفارم پہنے بچوں پر ہی اثر انداز ہوتی ہے جبکہ وزیراعظم صاحب نے اس کا الزام گزشتہ حکمرانوں پر ڈال دیا کہ انہوں نے درخت لگانے پر توجہ نہیں دی۔

یہ حالات پہلی مرتبہ پیش نہیں آۓ بلکہ ہر سال اس موسم میں سموگ کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اور ہر سال حکومت چند بیانات کے ساتھ ساتھ چند وقتی اقدامات کر دیتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ یہ سموگ خود ہی چند دن بعد ختم ہو جائے گی۔

آخر سموگ پیدا ہونے کی وجوہات کیا ہیں ؟
اس پر ماہرین دو وجوہات بتاتے ہیں۔اول یہ کہ اس موسم میں ہندو برادری کا دیوالی تہوار منایا جاتا ہے،جس پر ہندوستان میں بڑی تعداد میں آتش بازی کی جاتی ہے،جس کے دھواں کی وجہ سے یہ سموگ پیدا ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے ہندوستان کے اکثر شہر جبکہ ہندوستان کی سرحد سے قریب پاکستانی شہر لاہور اور چند دوسرے شہر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس کی دوسری اہم وجہ فصلوں کی کٹائی کے بعد کھیتوں کو دوسری فصل کے قابل بنانے کے لئے آگ لگانا بھی ہے جو پنجاب میں تقریباً ہر جگہ ایسا ہی کیا جاتا ہے اور کئی دہائیوں سے ایسا ہی کیا جاتا آ رہا ہے مگر سموگ کا مسئلہ چند سالوں سے جاری ہے۔

پنجاب حکومت نے اس کا حل یہ نکالا کہ پنجاب بھر میں جہاں بھی کسان اپنے کھیت کو آگ لگائے گا اسے فوری طور پر گرفتار کر لیا جائے۔

اس سے شاید مسئلہ مکمل طور پر تو حل نہیں ہو گا مگر کچھ بہتری ضرور آۓ گی لیکن اس کا سو فیصد فائدہ ایک بار پھر پنجاب پولیس کو ہی پہنچے گا کہ ایک اور کمائی کا ذریعہ نصیب ہو گیا لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ریاست کو سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں بی بی سی اردو نے سموگ پر ایک مختصر سی ڈاکیومینٹری پیش کی ہے جس میں سموگ کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے کسان کا موازنہ کیا گیا ہے۔جس کا عنوان تھا
” ‘مڈھی’ ہندوستانی کسان کے لئے سونا،پاکستانی کسان کے لئے خاک کیوں ؟”

اس ڈاکیومینٹری میں بی بی سی نے بتایا کہ ہندوستان میں فصل کی بقایاجات کو جلانے کے بجائے کھیت کے لئے کھاد کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے،جس کے لئے ایسی مشین تیار کی گئی ہے جو فصل کی بقایاجات کو کھیت میں ہی کرش کر دیتی ہے جو کھیت کے لئے کھاد کی طرح انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے،جس سے فصل بھی اچھی ہوتی ہے،اس کے علاوہ اس بقایاجات کو سی این جی بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے یعنی جسے پاکستانی کسان کم علمی کی وجہ سے بوجھ سمجھ کر جلا دیتے ہیں،ان کے پڑوس میں اسی بوجھ کا بہترین استعمال کیا جا رہا ہے۔
اب پاکستانی کسان کی اس معاملے پر کم علمی کا ذمہ دار کس کو قرار دینا چاہئے،یہ ایک طویل بحث ہے مگر اس سموگ کا کی اصل ذمہ دار ریاست ہی ہے جو محکمے تو بنا دیتی ہے،ہزاروں ملازمین بھی بھرتی ہو جاتے ہیں،ہر ماہ بھاری تنخواہ اور سہولیات بھی دیتی ہے مگر ان سے وہ کام نہیں لیا جاتا جو نہایت ضروری ہوتا ہے۔
یہ ریاست ہی کی ذمہ داری تھی کہ سموگ پر پکڑ دھکڑ کرنے کے بجائے ایسا کوئی حل تلاش کرنا چاہئے تھا کہ جس کے بعد کسان کو بھی بقایاجات جلانے سے زیادہ اس حل میں فائدہ نظر آتا اور وہ خود ہی اس غلط اقدام سے باز رہتے۔

ہم ہندوستان کے ساتھ بم بنانے میں تو مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں مگر ان شعبوں میں کہ جس میں عوامی بھلائی ہو یا معیشت اچھی ہو،ان معاملات پر ہم آنکھیں موند لیتے ہیں۔

آخر ایسا کیا مشکل ہے کہ جو مشینری ہندوستان میں کھیت کے بقایاجات کو کرش کرنے کے لئے استعمال ہو رہی ہے،وہ پاکستان حاصل نہیں کر سکتا یا مقامی طور پر تیار نہیں کر سکتا اور جہاں فضول پراجیکٹس پر سبسڈی دی جا رہی ہے وہیں زرعی انڈسٹری کو اس قسم کی مشینری تیار کرنے یا برآمد کرنے پر سبسڈی نہیں دی جا سکتی ؟

ان اقدامات سے زرعی شعبہ جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا،اہم اور سب سے زیادہ نظرانداز کۓ جانے والے شعبے کو تقویت بھی مل سکتی ہے اور پاکستانی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لیکن ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ ہم سستی روٹی کے نام پر اربوں روپے تنور میں جھونک سکتے ہیں،لنگر خانے کے نام پر اربوں روپے جھونکنے جا رہے ہیں مگر زراعت پر توجہ دے کر ہر ایک کے لئے سستا آٹا اور سستی روٹی جیسے اقدامات نہیں کر سکتے کیونکہ اگر ایسا کچھ ہو تو ہمارے حکمرانوں کے پاس کریڈٹ لینے کے لئے دکھانے کے لئے کچھ نہیں ہو گا۔

سستا تنور نظر آتا اور لنگر خانے بھی نظر آتے ہیں اور جو دکھتا ہے،وہ بکتا ہے بس اسی پالیسی کے تحت حکمران عوام کو بھکاری اور آرام پسند بنتا دیکھ سکتے ہیں مگر اجتماعی طور پر کوئی اچھا فیصلہ نہیں کریں گے۔

ہم پہلے ہی زراعت کے شعبے میں تقریباً پانچ دہائیاں پیچھے چل رہے ہیں اور اب اگر کھیت کو آگ لگانے پر بھی پولیس پکڑ دھکڑ کرے گی تو یہ شعبہ مزید پیچھے چلا جائے گا۔

ہمارا قومی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ شارٹ کٹ کو ترجیح دیتے ہیں،کسان فصل کے بقایاجات جو کھیت سے نکالنے کی محنت سے آگ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ حکومت بھی کسی مسئلہ کا پائیدار حل نکالنے کے بجائے بس پکڑ دھکڑ کو ترجیح دیتی ہے۔

اب جبکہ اس سنگین مسئلہ کا حل ہمیں مل چکا ہے تو یہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر ایسی مشینری برآمد کریں،محکمہ زراعت کو بھی متحرک کریں کہ وہ اپنے علاقے کے کسانوں سے رابطہ کریں اور انہیں کھیت میں آگ لگانے سے نقصانات سے آگاہ کریں بلکہ اس کے بہترین نعم البدل کے بارے میں بھی آگاہی دیں کہ جس چیز کو آپ آگ لگا رہے ہیں،اس سے ماحولیات پر کتنا برا اثر پڑتا ہے اور اگر آپ اس بقایاجات کو جلانے کے بجائے کھیت میں ہی استعمال کریں تو وہ آپ کو کھاد جتنا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔معاملہ سنگین ضرور ہے مگر اس کا حل نہایت سستا اور فائدہ مند ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ زرعی انڈسٹری کو سبسڈی دینے کا بھی انتظام کیا جائے تاکہ اس شعبے میں جدت لائی جا سکے کیونکہ ہمارے پاس ایک بہت بڑا زرعی رقبہ ہونے کے باوجود بھی زرعی قلت کا شکار رہتے ہیں اور کسان زراعت میں فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں جہاں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز تعمیر کی جا رہی ہیں حالانکہ یہ ایک اور انتہائی سنگین معاملہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آپ بنجر زمین پر،دریا میں،یہاں تک کہ سمندر میں بھی بڑی سے بڑی عمارت تعمیر کر سکتے ہیں مگر وہاں زراعت نہیں کر سکتے یعنی زرعی زمین پر عمارتیں تعمیر کرنا ظلم عظیم ہے،ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو کیا صرف بلند عمارتیں اور ہاؤسنگ سوسائٹیز دے کر جائیں گے ؟
کیا وہ ان عمارتوں کو چاٹ کر اپنی بھوک مٹائیں گے ؟

ہم آبادی میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں مگر ان کی خوراک کا سامان مہیا کرنے سے غافل ہیں،حکمران وقتی فائدہ کی سوچ رہا ہے جبکہ مولوی ایک جملہ کہہ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ اللہ رزق دینے والا ہے،وہ پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے اسے کیسے بھول سکتا ہے۔اب اس مولوی کو سمجھانے کی گستاخی کون کرے کہ بیشک اللہ رزق دیتا ہے مگر کیا بند کمرے میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے شخص کو بھی رزق ملتا ہے ؟

اللہ نے ہی ہمیں یہ زرعی زمین عطا کی ہیں اور اسی میں ہی ہمارا رزق موجود ہے،جب ہم ہی اس رزق کو ختم کر دیں گے تو کیا یہ نافرمانی کے زمرے میں نہیں آۓ گا ؟

ہمیں زراعت اور ماحولیات دونوں پر ہی ایک ساتھ توجہ دینا ہو گی کیونکہ یہ دونوں ہی انسانی بقاء کے لئے ضروری ہیں ورنہ اگلے چند سالوں میں ہمارے پاس نا ہی سانس لینے کے لئے صاف ستھری فضاء ہو گی اور نا ہی پیٹ بھرنے کے لئے فصل کاشت کاری کے لئے زمین مگر کیا کیا جائے کہ جس صوبے کے وزیر اعلیٰ کو سموگ اور سموک میں ہی فرق معلوم نہیں ہو،وہ اس معاملے پر کتنی سنجیدگی دکھا پائے گا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں