الجھی ہوئی نسل ”کنفیوزڈ جنریشن“…! (شیخ خالد زاہد)

الجھاءو اور نسل کوآسان الفاظ میں سمجھانے کیلئے انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہوئے کنفیوزڈ جنریشن لکھنا پڑا کیونکہ انگریزی میں لکھے بغیر قارئین کی سمجھ تک مدعا پہنچنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک غیرمہذب واقع رونما ہوا جب ایک مطب میں بیٹھے ہوئے ایک ضعیف شخص نے مریضوں کی ترتیب پر سوال اٹھاتے ہوئے موجودہ نسل پر حسب معمول بے، ترتیبی کا ملبہ ڈال دیا گیا۔ جس کی صفائی میں انہیں بہت ادب کیساتھ یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ نئی نسل تو پرانی نسل کے بوئے ہوئے کو کاٹتی ہوئی آ رہی ہے، اس میں نئی نسل کاکتنا قصور ہے بلکہ نئی نسل تو روایت شکن بننے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے، تمام معاملات مہذب انداز میں تمام ہوئے۔ طبیب سے فارغ ہوکر قابل احترام ہماری طرف آئے اور بڑے ہی ادب سے ہماری جانب معذرت کیلئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنے الجھنے کو اپنی عمر کے تکازے کی وجہ بتاتے ہوئے برابر رکھی خالی نشست پر براجمان ہوگئے اور ہمارا ہاتھ بڑی ملاحمت سے تھامے گفتگو فرماتے رہے۔ گوکہ انہوں نے ہمارے موقف کی اپنے لفظوں میں حماءت نہیں کی لیکن انکے عمل سے یہ واضح ہورہا تھا کہ انہیں اس بات کا شدیداحساس ہوا ہے کہ انکی نسل نے بدلاءو کیلئے کوئی خاطر خواہ کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا۔ اس امر سے بھی سب واقف ہیں کہ راتوں رات ترقی نہیں کی جاسکتی۔ ترقی یافتہ قوموں نے راتوں رات ترقی نہیں اور ناہی اچانک سے وہ سب کچھ ہوگیا جیسا کہ فلموں میں دیکھا جاتا ہے۔ تہذیبیں یونہی تاریخی حیثیت اختیار نہیں کرلیتیں ایسے ہی دنیا تاریخی داستانوں سے مرعوب نہیں ہوجاتی۔

مستقل مزاجی ، تکلیف دہ فیصلے اور ایسے دائمی اقدامات کہ جن کی بنیاد پر ترقی کی ایک چھوٹی سی شمع دنیا کیلئے ایک دن سورج بن کر دمکنے لگتا ہے ۔ تاریخ کس کس کو یاد رکھتی ، ہر اس فرد کو کہ جس نے اپنی عقل و دانش سے معاشرے کے سدھار اور بہترین ذہن سازی کیلئے راہیں ہموار کیں اور نسلوں کی سوچوں کو مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے گامزن کیا ۔ یہی وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے اپنی نسلوں کیلئے درست سمتوں کا تعین کیا جن پر ترقی پوشیدہ تھی بشمول بنیادی جزیات اپنی قومی زبان، بنیادی تعلیم ، رہن سہن ، مذہب پرستی ، لباس اور کھانے پینے کی اشیاء و دیگر(جن امور کی بنیاد پر تہذیبیں ترتیب پاتی ہیں ) ۔ ان قوموں کے بڑوں نے خود بھی ان ہی سمتوں کی جانب پیش قدمی کی (جسکے لئے انہیں پچھلی نسل سے کشیدگی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا) اور نئی نسل کیلئے پیداکئے جانے والے ابہاموں کو اپنے اوپر جھیلتے گئے تاکہ نئی نسل کی پیشقدمی جوکہ دائمی ترقی کی جانب تھی کسی قسم کی رکاوٹ سے باز رہ سکے اورپھر تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے مقاصد ناصرف حاصل کئے بلکہ آج تہذیب یافتہ دنیا میں قلیدی حیثیت بنائے بیٹھے ہیں۔ انکی منظم اور مستحکم حکمت عملی کی بدولت نا صرف ملک بلکہ انکی نسلیں انتہائی مضبوط عزائم کیساتھ آج دنیا کی رہنمائی کیلئے پیش پیش ہیں ۔ آپ کی دیرینہ خواہش بغیر کسی وجہ کہ تو نہیں کہ آپ کے بچے کسی ایسے ہی ملک میں تعلیم حاصل کریں جہاں سے انہیں اپنے بہترین مستقبل کی سند ملے ۔

بڑے کاموں کیلئے بڑی کٹھن جستجو کرنی پڑتی ہے اور ایسا بھی ممکن ہوتا ہے کہ ایک نسل کی شروع کی جانے والی جدوجہد کا ثمر وہ نسل خود تو نا دیکھ سکے لیکن بعد کی نسلیں اس سے بھرپور مستفید ہوسکیں ، جیسے درخت لگانے والا اسکے پھل اور سائے سے محروم رہ جاتا ہے لیکن آنے والی نسلیں اس درخت سے سائے سے اور پھل سے فائدہ اٹھاتی چلی جاتی ہیں۔ بدلاءو کیلئے کام کرنے والوں کیلئے ذہنی طور پر شدید مزاحمت کیلئے تیار ہونا بہت ضروری ہے، انکے لئے راستے کے چناءو اور اس پر چل کر درپیش مسائل سے ہم آہنگی کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ وہ جس بدلاءو کیلئے کام کر رہے ہوتے ہیں اسکے مضمرات سے بہت حد تک واقف ہوتے ہیں اور انہیں ایک حد تک علم ہوتا ہے کہ کس قسم کے عمل کا کیا ردعمل ہوسکتا ہے۔ ہم جس دور میں ہیں یہاں کسی نئی تہذیب کو ترتیب دینے کا وقت نہیں ہے (دراصل اب وقت کسی کے پاس بھی نہیں ہے)، کیونکہ آج صرف اور صرف آسائشوں کی ترتیب پر اور طاقت کے حصول کیلئے ہر طرف جدوجہد جاری ہے ۔ جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جو معمولات زندگی میں بری طرح سے پھنسے ہوئے ہوتے ہیں انکے لئے بدلاءو ایک خوفناک چیز ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی میں وقت کو توازن سے استعمال کرنے کی کوششوں میں سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہوتے ہیں ، ایسے میں کسی بھی قسم کا بدلاءو انکے لئے کسی وبال سے کم نہیں ہوتا۔ بدلاءو کبھی بھی تیزی سے نہیں آتا، بدلاءو کیلئے کام کرنے والے کتنے ہی ادارے اس کوشش کی نظر ہوگئے اور آخر کار انہیں اپنا رخ بدلنا پڑا ۔ بدلاءو کیلئے کام کرنے والے مختلف قسم کی تبدیلی چاہتے ہیں انکا کہنا ہوتا ہے کہ ہ میں آپکے اوڑھنے پہنے سے کوئی غرض نہیں ہے کیونکہ جب آپ مغربی یا کسی اور تہذیب کا مطالعہ کرینگے تو شائد آپ کے اندر کی خواہش ان کی تہذیب میں پوری ہوتی ہوئی دیکھائی دے تو آپ اپنے پہناوے میں خود ہی تبدیلی لے آئینگے، آپ اپنی روایات میں بھی تبدیلی لے ہی آسکتے ہیں۔ شائد تاریخ بھی اس بات کی گواہی نا دے سکے کہ وہ کتنی قو میں یا تہذیبیں تھیں جن کا کہیں کوئی نام و نشان باقی نہیں بچا ۔ ہم ابھی افسانوں میں ڈھلنے سے بچے ہوئے ہیں لیکن ہ میں تاریخ کی تاریکی میں گم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ گھر کا موحول کچھ ہو ، گھر میں مختلف قسم کے نظریات بیک وقت بچے پر اثر انداز ہورہے ہوں ، معاشرہ مختلف تعلیمی نظاموں پرکھڑا ہو، مختلف معاشروں سے مماثلت رکھتی ہوئی رسومات خوشیوں اور غموں کے اظہار کا ذریعہ بنی ہوئی ہوں ، اور سب سے بڑھ کر ایک ہی مذہب کو مختلف طریقوں سے واضح یا مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہو، زبان اور پہناوے میں کوئی یکسوئی نا ہو ایسے میں بچہ کس طرح سے منظم و مستحکم سوچ کیساتھ پروان چڑھ سکتا ہے اور کس طرح سے ملک و قوم کی خدمت جذبہ حب الوطنی سے ادا کر سکتا ہے۔ وہ تو پہلے دن سے آخری دن تک تذبذب کا شکار ہی اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا ۔ بدعنوانی کا ناسور ہمارے معاشرے کی تمام مذہبی اور معاشرتی روایات کو دیمک کی طرح چاٹتا جا رہا ہے۔

یوں تو پاکستان میں سیاست مشکلات کو حل کرنے کہ وعدوں پر ہوتی ہے، ہمارے سیاست دانوں کیلئے کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ وہ وعدہ ہی گیا جو وفا ہوجائے۔ دراصل یہ ان لوگوں کا ٹولہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر عوام کے مسائل حل ہوگئے تو ہمارے آگے پیچھے کون پھرے گا ہماری منتیں، خدمتیں بھلا کون کرے گا۔ پاکستان بدلنے کیلئے پر تول رہا ہے لیکن پروں پر بہت وزن بندھا ہوا ہے جو پرواز میں مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے۔ تبدیلی کیلئے مختلف نظریات پیش کئے جاتے رہے ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے ۔ اسے بدقسمتی کہہ سکتے ہیں کہ تبدیلی کو ایک مخصوص طبقے نے مذاق بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رکھی ہے۔ اسے مذاق کہہ لیں یا پھر ہذیانی کیفیت کہ نئی نسل صحیح اور غلط میں فرق نہیں کرپا رہی ہے اور دو مختلف طرز کی سوچ میں منقسم ہوتی جا رہی ہے ۔ تبدیلی کیلئے سب سے ضروری ہے کہ تمام اداروں (تعلیمی یا صنعتی) کو سیاسی پہنچ سے ہر ممکن دور رکھا جائے تاکہ کسی مخصوص سوچ اور نظرئیے کو فروغ نہیں دیا جاسکے اور تخلیقی کاموں کیلئے بنائے گئے ذہنوں کو مفلوج نا کر دیا جائے۔ ہمارے ملک میں ایک ادارے کہ تقریباً ادارے اپنی اپنی بقاء کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے سیاسی ادوار کی نظر ہوتے رہے، اداروے اپنی حیثیت کبھی نہیں بنا سکے اور شائد یہی اہم ترین وجہ ہے کہ وہ نفع بھی نہیں بنا سکے ۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اب ایک صحیح اور غلط کے درمیان دیوار کھڑی کی جارہی ہے جس سے سرٹکرانے والے بہت واضح دیکھائی دے رہے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ہماری آنے والی نسل تمام الجھنوں سے نجات پاچکی ہوگی کیونکہ اب جس کائناتی نظرئیے کو دوام دینے کی بات کی جارہی ہے اس پر چلنے کی بات آج تک کہ خوفزدہ حکمران نہیں کرسکے۔ ہم بطور موجودہ نسل اپنی حتمی سمت کا تعین ہوتا دیکھ رہے ہیں ہمارا ایمان ہے کہ حق رہنے کیلئے اور باطل مٹنے کیلئے ہے ۔ نظام عدل ایک ، تعلیمی نظام ایک، طب کی سہولیات ایک، قومی لباس، قومی زبان ایک اورحکمران قوم کے درمیان، ملک یقینا صحیح سمت میں چل پڑا ہے اب تمام الجھنیں ختم ہونے والی ہیں۔ ہمیں قومی زبان کی افادیت پر بھی خصوصی توجہ دینی ہوگی تاکہ کسی اردو لکھنے والے کواپنے موقف کی وضاحت کرنے کیلئے انگریزی زبان کا سہارا نا لینا پڑے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں