چائے سے چاہ! قسط 1 (وجاہت عمرانی)

اپنی جنم بھومی ڈیرہ اسماعیل خان سے دور شہر روزگار میں دسمبر کا شروعاتی ہفتہ۔ یہی وہ دن ہیں، جب عجیب سی اداسی اور ویرانی چار سو پھیل جاتی ہے ،راتیں طویل اور دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں، شام کے بعد سڑکوں پر سناٹوں کا راج، شہروں میں جنگلوں کی سی خاموشی اور سرد ہوائیں ہڈیوں میں اترتی محسوس ہوتی ہیں۔

یہی منظر میری نگاہ کے سامنے تھا، شہر ِ روزگار میں کرائے کے مسکن سے ہر چیز کو دھندمیں لپٹا ہوا دیکھ رہا تھا، آسمان پر بادلوں نے اندھیر نگری مچائی ہوئی تھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے ابھی جل تھل شروع ہو جائے گا اور آنا فانا پھر سے بارش کا سلسہ شروع ہو جائے گا۔

کیسی بات ہے جب آپ بلکل خاموش ہوں تنہا ہوں آپ کے ساتھ کوئی نہ ہو کمرہ بالکل خاموش ہواور تنہائی کا جیتا جاگتا احساس ہو، ہیٹر سے کمرہ گرم ہو رہا ہو جذبات بھی خاموش ہوں تو صرف ایک ہی چیز آ پ کے من کو تازگی بخش سکتی ہے اور وہ ہے چائے۔

جو آپ کے من کو نئی تازگی بخشتی ہے اور ایک خوشگوار احساس پھر سے تازہ ہو جاتا ہے چہرہ چمک اٹھتا ہے۔ بچپن ہی سے یہی عادت ورثے میں ملی، جب سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں گرم چادر اوڑھے انگیٹھی میں دہکتے کوئلوں پر ہاتھ سینکتے اکثر ماں گرم گرم بھاپ اڑاتی چائے کی پیالی جب ہاتھ میں تھماتیں تو روح میں تازگی بھرا احساس جنم لے لیا کرتا تھا۔

ماں سے ان کے ماضی کے دلچسپ تجسس سے بھرپور قصے، والد مرحوم کی باتیں و یادیں، شعر و سخن، قلم و کتاب سے محبت کا درس، زندگی گزارنے کے اصول ضوابط سنتے، ماں کی چاہ سے لبریز کڑک چائے سے لطف اندوز ہوا کرتا۔

پتہ ہی نہیں چلتا کب پیالی ختم ہوئی اور کب ماں کی ممتا بھری باتوں نے نیند کی آغوش میں پہنچا دیا اور کس نے اپنے بازں کے محبت بھرے حصار میں اٹھا کر گرم بستر پہ سلا کر گرم رضائی اوڑھا دی۔ بہرحال ایک یخ بستہ موسم، پھر تنہاہی اور لکھنے کا جنون جب ایسی مثلث یکجا ہو جائے تو پھر چائے کے بِنا کچھ بھی نہ لکھ سکتا ہوں۔

نہ سوچ سکتا ہوں یعنی میری تخلیقی صلاحیت ساکت ہو جاتی ہے۔ چاہے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں مگر میں تو یہی جانتا ہوں کہ بغیر پٹرول کے گاڑی اور بغییر چائے کے لکھاری کبھی چل ہی نہیں سکتے۔

جب بھی کچھ لکھنے پہ طبعیت آمادہ ہو یا جب میرے اندر کچھ نیا تخلیق پانے لگتا ہے تو میں باورچی خانے کا رخ کرتا ہوں۔۔ وجہ۔۔۔ میں چائے کو بھی اسی اہتمام سے تیار کرتا ہوں جس اہتمام سے کاغذ قلم سے قرطاس پر کچھ نیا رنگ بکھیرنے لگتا ہوں۔ چائے کے کھولتے ہوئے پانی میں مجھے انسانی جذبات کی سسک محسوس ہوتی ہے۔

اس تپش کو میں پتیلی سے نکلتی بھاپ میں محسوس کرتا ہوں۔ خشک پتی کی سوندھی خوشبو میں تخیل کے بادل بننے لگتے ہیں۔ دودھ اور کھولتے قہوے سے ایک نیا رنگ جانے کتنے رنگوں کو جنم دینے لگتا ہے اور پھر پوے سے اس چائے کو پھینٹنے کے عمل سے گذارتے ہوئے کتنے ہی بدن باہم رقص بکھیرتے پتیلی میں بکھرتے چلے جاتے ہیں۔

چولھا بند کرنے کے بعد چند لمحوں کے دم پر کسی نرتکی کے پاں جیسے تھم سے جاتے ہیں، اس کی پھولی سانسیں، وجود انسانی کے زیروبم اس خاموش پتیلی میں اترتے دکھائی دیتے ہیں اور جب چائے پک کر تیار ہوتی ہے۔

ایک تخلیق بھی پک کر تیار ہوچکی ہوتی ہے۔ یاد رکھیئے لکھاری اور چائے، ان دونوں میں ایک روحانی رشتہ ہے، لکھاری جب چائے کے بارے میں سوچتا ہے تو آس پاس کی زندگی کے فلسفے کو سمجھنے کا پہلا پڑا ثابت ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی دوسرا رشتہ لکھاری اور قاری کا ہوتا ہے۔

کچھ قاری ایسے ہوتے ہیں کہ کتاب پڑھتے اگر چائے کی چسکیاں نہ لیں تو انہیں پڑھنے کی چس ہی نہیں آتی۔ کسی بھی لکھاری کے جذبات چائے کی رنگت اور اس کی مٹھاس کی مقدار کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں۔تیز پتی کی چائے قلم میں تیزی اور حلاوت گھول دیتی ہے،جبکہ میٹھا اس کے قلم سے نکلنے والے لفظوں میں چاشنی کی صورت جھلکتا ہے۔

مطلب، بھاپ اڑاتی چائے کا کپ قلم کو چلانے کے لیے پٹرول کا سا کام کرتا ہے۔ ویسے اس دنیا میں کچھ انسانوں کا کچھ لوگوں اور کچھ مشاغل سے رشتہ بھی پیالی بھر ہوتا ہے، جب تک پیالی میں یہ پگھلا ہوا سونا ہے، وہ ماحول وہ کیفیات قائم رہتی ہیں۔

جب چائے ختم تو وہ سترنگا بلبلہ بھی پھوٹ جاتا ہے، جس میں وہ مقید ہوتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے کہ کوئی بھی لکھاری جواپنے جذبات کو الفاظ کا جامہ بہت خوبصورتی سے پہناتا ہے اس میں بہت حد تک چائے کا دخل ہوتا ہے۔

لکھاری کے لیے لکھنے کے دوران چائے کا کپ ایک معجزے کا کام دیتا ہے جس سے ذہن میں عمدہ خیالات امڈ آتے ہیں لکھاری کے لیے چائے اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی پانی کی اہمیت ہماری زندگی میں ہے۔

میری خالصتا زاتی رائے ہے کہ کسی بھی لکھاری کا اسکا پہلا اور آخری عشق، قلم، کتاب اور چائے ہی سے ہوتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کسی زمانے میں لکھاریوں کو مئے سے عشق تھا۔ ماضی کے ادب کی ہر صنف میں آپکو مئے ہی کا زکر ملے گا۔

یہ تو اللہ بھلا کرے فرنگیوں کا جو برصغیر میں سید المشروبات چائے کو روشناس کرا کے مئے سے چھٹکارا دلایا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب مئے کی جگہ چائے کو شاعری میں اہمیت حاصل ہے۔

مئے یعنی شراب کی جگہ چائے پر شاعری اور نثر لکھی جاتی ہے۔

یہ دنیا بے ادب سی ہے یہاں بدذوق جیتے ہیں
سنہری چاند کی کھڑکی میں آ چائے پیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں