قصاب، مرغی اور قاضی (شیخ نعیم کمال)

کافی عرصہ پہلے نعیم کے نمبر پر بذریعہ واٹس ایپ لطیفہ ہذا موصول ہوا، کافی مرتبہ دوستوں نے فرمائش کر کے سنا، سوچا موقع کی مناسبت سے اس سے کچھ مثبت معانی تخریج کئیے جاویں۔
لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک قصاب تمام گوشت فروخت کر کے دکان بند کرنے ہی والا تھا کہ ایک شخص ہاتھ میں زندہ مرغی پکڑے ہوئے آیا اور قصاب سے کہا کہ بھائی ذبح کر کے گوشت بنا دو جب تک میں بازار سے باقی اشیاء خرید لوں واپسی پر تمہیں اجرت دیتا ہوں۔ قصاب نے گوشت بنایا اور مرغی والے کا انتظار کرنے لگا۔ مگر اسکے آنے سے قبل قاضی الوقت تشریف لائے اور قصاب سے کہا: بھائی مہمان آئے ہیں گوشت دو قصاب: جناب گوشت تو ختم ہو چکا، مگر قاضی کی نگاہ اس مرغی کے گوشت پر پڑی کہا یہ کیوں نہیں مجھے فروخت کرتے؟ قصاب: جناب یہ امانت ہے ابھی وہ شخص آتا ہی ہو گا۔ قاضی: اگر تم مجھے یہ گوشت دے دو تو میں تمہیں بہت کچھ دے سکتا ہوں۔ قصاب: جناب مگر مرغی کے مالک کو کیا کہوں گا؟ قاضی: اسے کہنا کہ مرغی زندہ ہوئی اور اڑ گئی۔ اور اگر وہ نہ مانے تو مقدمہ میری عدالت میں لے آنا فیصلہ تمہارے حق میں ہو گا۔ غرضیکہ قصاب نے قاضی کو خوش کرکے خیانت کر ہی لی۔ مرغی والا واپس پلٹا اور گوشت کا مطالبہ کیا۔ قصاب: وہ تو معجزہ ہو گیا مرغی ذبح ہونے کے بعد پھر زندہ ہوئی اور اڑ گئی۔ اس پر کافی تکرار ہوئی پھر خوب ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ جو کہ ایک ہمسایہ یہودی لڑائی ختم کرانے کیلئے درمیان میں ٹپکا مگر قصاب کے شدید مکے کی وجہ سے یہودی کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ اب ملزم قصاب اور مقدمے دو ہو گئے طے یہ پایا کہ قاضی سے چل کر فیصلہ کرواتے ہیں۔ اب مرغی والے کا دعویٰ یہ تھا کہ خیانت کے بدلے قصاب کو کوٹے مارے جائیں اور یہودی کا مقدمہ یہ تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ ہی لونگا۔ قصاب کو پکڑ کر قاضی کے پاس لیجایا جا رہا تھا کہ قصاب یہ سوچ کر دلبرداشتہ ہو گیا کہ قاضی نے صرف مرغی خیانت سے بری کرنے کی زمہ داری لی ہے میری آنکھ ضائع ہونے سے اب مجھے کوئی نہیں بچائے گا۔ مایوس ہو کر اس نے مرغی والے اور یہودی سے فرار ہو کر مسجد میں داخل ہوا اور مینار پر چڑھ گیا کہ چھلانگ لگا کر خود کشی کر لے۔ قصاب نے چھلانگ لگائی تو نیچے ایک 100 سالہ ضعیف بابا تھا اس پر آ گرا۔ نتیجتاً بابا فوت ہو گیا قصاب صحیح سلامت رہا۔ اب بابے کے 2 بیٹوں نے قصاب پر اپنے والد کا قتل ڈال دیا اور تینوں مدعی پارٹیاں قصاب کو حراست میں لیکر قاضی کے پیش ہو گئیں۔ قاضی نے جب داستان سنی تو ایک لمبی سانس بھری کہ ایک ایک مرغی ہضم کرنے کی خاطر اب قصاب کو بری کرنا ہے تو کیسے کرنا ہے؟ سوچ بچار کے بعد کہا کہ سب خاموش ہو جائو اور پہلے قتل کے مدعی پیش ہوں۔ بابے کے بیٹے پیش ہوئے حقائق بتا کر قصاص طلب کیا کہ قصاب کو سزا موت دی جائے۔ قاضی فیصلہ سناتے ہوئے: ٹھیک ہے مجھے بابے کی موت کا افسوس ہے مگر یہ قتل خطا تھا، تو پس تم دونوں بھائیوں سے ایک مینار پر چڑھ جائے نیچے قصاب کو کھڑا کر کے اسکے اوپر چھلانگ لگا دے بالکل اسیطرح جیسے تمہارا والد مرا قصاب کو بھی ویسے موت دی جائے۔ دونوں بھائی شدید خوف زدہ ہو کر بولے جناب یہ رسک ہم نہیں لے سکتے ہم مقدمہ واپس لیتے ہیں۔ اب یہودی پیش ہوا اور کہا کہ وہ قصاب کی آنکھ لینا چاہتا ہے بدلے میں۔ قاضی فیصلہ سناتے ہوئے: ٹھیک ہے غیر مسلم پر کسی بھی تعزیر کا آدھا قصاص ہے، پہلے مسلمان قصاب یہودی کی دوسری آنکھ بھی ضائع کرے گا اور بعد میں یہودی مسلمان کی ایک آنکھ بطور قصاص لے سکتا ہے اور یہی انصاف ہے۔ یہودی گھبرا کر بولا جناب میں کسی طور بھی اپنی دوسری آنکھ ضائع نہیں کروا سکتا۔ قاضی: تو پھر مقدمہ واپس لے لو۔ اس طرح یہودی نے بھی اپنا مقدمہ واپس لیکر اپنی باقی دوسری آنکھ محفوظ کر لی۔ اب مرغی والا پیش ہوا اور کوڑوں کی درخواست کی کہ قصاب کہتا ہے کہ میری مرغی بعد از ذبحگی زندہ ہو کر اڑ گئی۔ قاضی: تم بہت بد بخت انسان ہو اللّٰہ کے معجزات پر تمہیں یقین نہیں اگر یقین کر لیتے تو نہ یہودی کی آنکھ ضائع ہوتی نہ وہ 100 سالہ بابا فوت ہوتا۔ مگر تمہاری بے یقینی کی وجہ سے ہی دو ظلم ہوئے۔ کیا تمہیں اب بھی یقین نہیں کہ مرغی زندہ ہو سکتی ہے، اگر قصاب جھوٹا ہوتا تو وہ پہلے دو سنگین مقدمات سے با عزت بری نہ ہوتا۔ یہی قصاب کی سچائی کی دلیل ہے، بہتر یہی ہے کہ تم بھی اپنا مقدمہ واپس لے لو ورنہ تمہاری وجہ سے پیدا ہونے والے فتنے کی سزا یہودی کی آنکھ اور بابے کے قتل کا قصاص کیوں نہ تمہیں سے لیا جائے کیونکہ قصاب تو بے قصور ہے۔ مرغی والا گھبرا کر بولا جناب عالی بلا شبہ میری مرغی اڑ گئی تھی میں اپنا مقدمہ واپس لیتا ہوں۔۔۔۔۔ قصاب با عزت بری از 3 مقدمات!
نتیجہ: جس نے بھی طاقتور اور صاحب اختیار و مقتدر طاقتوں کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہو! چاہے کتنا بھی بڑا، چور، ڈاکو، و خائن کیوں نہ ہو بریت ہی اسکا مقدر ہوتی ہے۔ یہ عدالتیں چاہے اندرونی ہوں یا بیرونی اسے سزا نہیں دے سکتیں بلکہ سیٹلمنٹ اور پلی بارگین جیسے قوانین ایسے چمچوں کے چونچلے اور قاضی کی رعایت ہیں۔ آپ جان گئے ہونگے میرا لطیفہ، ماضی قریب میں ہونے والی ڈیلز اور سیٹلمنٹ پر کیسے پورا فٹ ہے! ایسا ہی ہوتا رہے گا جب تک اس ملک کا ہر قصاب اور باشندہ ایماندار نہ ہو جائے۔ مگر افسوس ہے کہ کچھ شوخے سوشل میڈیا پر آکر بے مقصد اور بے ہودہ پوسٹس کر رہے ہیں کی فلاں ملک صاحب نے زبردست ایلفی لگائی ہوئی ہے کہ کوئی میڈیا، کوئی ادارہ اسکے خلاف نہیں بولتا ایسی نتھ ڈالی ہوئی ہے ویسا طاقتور ہے یوں ہے ملک ویسا ہے ملک فلاں فلاں وغیرہ وغیرہ۔ ہاں ناں اس نے سب کو منہ مانگی مرغیاں تقسیم کی ہوئی ہیں کیونکہ اسکے پاس تقسیم کرنے کو موغیاں تھیں، مگر تم اپنی قوم کو کیا دے رہے ہو؟ شوخیاں، چولیں اور جگتیں، کیونکہ تمہارے پاس اسکے علاوہ اور ہے کیا؟ کوئی فکر امت؟ فکر ملت؟ یا کوئی تخلیقی استعداد؟
اے لوگوں! یہ سوچو چند مرغی فروشوں اور سرمایہ داروں کی غلامی سے آزاد کیسے ہونا ہے؟ چولیں مارنا اور قصیدے پڑھنا بند کریں اور مثبت سوچیں! ورنہ بلواسطہ غلامی سے آزادی حاصل کرنا تمہارا خواب ہی رہ جائے گا!


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں