عصمتوں کا تحفظ کیسے ممکن؟ (آصف اقبال انصاری)

کسی بھی معاشرے کے بگڑنے اور سنورنے کا دارومدار معاشرے میں بسنے والے افراد پر ہوتا ہے۔ چوں کہ معاشرہ بنتا ہی افراد سے ہے۔ لہذا افراد جیسے ہوں، معاشرہ ویسے ہی تشکیل پاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں جہاں دوسرے جرائم میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے تو وہیں ” بچے اور بچیوں سے زیادتی” کے کیسیز بھی بڑھتے چلے گئے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہ جرم کیوں ہوتا ہے؟ اور مسئلہ یہ بھی نہیں کہ مجرم کیوں بنتے ہیں؟ اور یہ سوال ہو بھی کیسے کہ روز اول سے ہی نیک و بد اور نیکی و بدی کی تقسیم چلی آرہی ہے۔ اصل بات اور بنیاد یہ ہے کہ جرم کے ایک مرتبہ ہونے کے بعد دوہرایا کیوں جاتا ہے؟ کیوں پہلی ہی مرتبہ اسے جڑ سے فنا نہیں کیا جاتا کہ دوبارہ وجود ناممکن ہوجائے۔ پہلا مجرم، مجرم خود ہی بنتا ہے۔ مگر بعد از اول مجرمین سرکار خود بناتی ہے۔اگر پہلے ہی مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دی جائے تو کیا معاشرے میں کوئی دوسرا جرات کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں!

رواں سال اور قبل ازیں ماضی قریب کے سالوں میں زیادتی کے بڑھتے واقعات نے عوام کو بے سکونی کے عالم میں ڈال دیا ہے۔جرائم کی روک تھام کے لیے اگر شریعت اسلامیہ پر نظر ڈالیں تو ہر ہر مسئلہ روز روشن کی طرح واضح ہے۔اسلام کی نظر میں تمام مجرمین برابر ہیں۔ بڑے چھوٹے، کمزور طاقت ور اور مرد وعورت کی کوئی تقسیم نہیں۔ اسلام میں حدود و قصاص کی مشروعیت کی بنیادی وجہ جرائم کا سد باب ہے۔ بظاہر ان حدود و قصاص سے یوں لگتا ہے کہ یہ ظلم و جبر کی داستان ہے۔ ظاہر ہے کسی کی جان لینا اسے بتاکر، یہ مروت انسانی کے خلاف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بطور قصاص ایک جان لینا، دوسروں کی زندگی کا احیا ہے۔ چوری پر ہاتھ کا کٹنا بظاہر ایک افسوس ناک امر ہے۔ مگر حقیقت میں دوسروں کے مال کا تحفظ ہے۔

زنا اور بدکاری پر کوڑوں اور سنگساری کی سزا اگرچہ ایک بھیانک منظر ہے مگر حقیقت میں دوسروں کی عزت نفس اور عصمت کی حفاظت ہے۔ اگر  جرم کی سزا جرم دیکھ کر دی جائے نہ کہ مجرم کو دیکھ کر، تو باآسانی سماج سے جرائم کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس اس ملک میں قوانین کمزوروں اور طاقتوروں کی تفریق سے لاگو ہوتے ہیں۔ فیصلہ بڑوں اور چھوٹوں کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے، جن کی وجہ سے سماجی برائیاں بڑے آب وتاب سے جنم لیتی ہیں۔

اگر عصمت سے کھلواڑ کرنے والے ان وحشی درندوں کو بر موقع کیفر کردار تک پہنچا دیا جائےتو س جرم کے مجرمین کا وجود ہی مسخ ہوجائے۔ لیکن اب تک نہ جانے کتنے معصوم پھول اور کلیاں مسل دی گئیں اور مجرمین اپنے جرم  کے ساتھ تاحال کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ یہی جرائم کا نقطہ  آغاز ہے۔ جس کو انتہا تک پہنچانا ،جرائم سے پاک پر امن معاشرے کے وجود کے لیے ضروری ہے!!!


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں