صور اسرافیل تھا یہ سانحہ! (حاجی محمد لطیف کھوکھر)

یہ شعرخواب غفلت میں ڈوبی ہوئی مسلم امہ کو بیدار کرنے کیلئے امت کا درد رکھنے والے شاعر نے آج سے 28 سال قبل بھارت کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت پر کہا تھا۔ 7 دسمبر کو ہندوستان میں مسلم عہد رفتہ کی عظیم یادگار مسجد کوہندو فرقہ پرستوں کے جتھے نے شہید کر دیا تھا۔ دو دہائیوں سے زائد عرصے بابری مسجد سیکولر کا واویلا مچانے والے بھارت سے انصاف کی جنگ لڑتی رہی ۔ چاہے مسلمانوں کی ہمدردی کا ڈھونگ رچانے والی کانگریس ہو یا مسلم وجودسے بھارت کو مکت کرنے والی بی جے پی دونوں نے مسلم شناخت و اسلامی تہذیب و ثقافت کو مٹانے میں مسلسل سرگرم ہیں۔بھارتی سپریم نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی اجازات دیکر دم توڑتے ہوئے سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے ۔ سوئی امت کیا جاگتی اس نے تو نریندر مودی حکومت کی اس فیصلے پر باز پرس کرنابھی مناسب نہ سمجھا ۔ 52 آزاد اسلامی مملکتوں میں سوائے ترکی کے کسی نے بھی اظہار مذمت کرنا بھی ضروری خیال نہ کیا ۔ اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی بھی اجلاسوں اور کانفرسوں سے آگے نہ بڑھ سکی ۔عرب امارات تو ویسے بھی مودی سے قربتیں بڑھانے میں مشغول ہے ۔ بابری مسجد شہید کرنے والے آر ایس ایس کے پرچارک نریندر مودی کوابو ظہبی سمیت دیگر عرب ریاستوں میں مندر بنا کر ان کی چابیاں تحفے میں دی گئیں۔ غیروں سے کیا گلہ کریں مسلمان حکمران ہی ہنود ویہود کے اسیر نظر آتے ہیں۔بابری مسجدبری مسجد مسلمانان ہند کا سب سے نازک ،حساس اور سنگین مسئلہ ہے ،مورتی رکھے جانے سے اس کی شہادت تک اور اس کے بعد سے اب تک مسلمانان ہند اس کی حصول یابی اور بازیابی کیلئے ہزراوں قربانیاں دے چکے ہیں اور عدلیہ سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔مقدمہ لڑنے والے مسلم فریق کو یہ یقین تھا کہ دلائل اور حقائق کی روشنی میں مقدمہ جیت جائیں گے کیونکہ اس جگہ کے رام جنم بھومی ہونے پر کوئی ثبوت نہیں ہیں ، ایسے میں عدلیہ کی جانب سے اسے آستھا اور عقیدت کا مسئلہ قراردیکر وہاں مندر کی تعمیر کا فیصلہ مسلمانوں کے لئے مایوسی کا سبب بن گیا ہے اور پس پردہ شایدیہ پیغام دیا گیاہے کہ بابری مسجد کی اراضی کا فیصلہ اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔انتہاپسند ہندوؤں نے 6 دسمبر 1992 کو شہید کردیا تھا۔ایودھیا میں واقع بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے، جس میں 2 ہزار سے زائد مسلمانوں کو مار دیا گیا ۔انتہا پسند ہندووں کا کہنا ہے کہ وہ اس مقام پر ہندو دیوتا ‘رام’ کا نیا مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو ان کی جائے پیدائش ہے۔برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کے لیے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔تقسیم ہندوستان کے بعد حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کے لیے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ان کا موقف ہے کہ 16ویں صدی کی بابری مسجد، مسلم بادشاہوں نے ہندو دیوتا کا مندر گرانے کے بعد قائم کی تھی۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 ء اور ئ 2018 میں انتخابات سے قبل اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں انتہا پسند ہندووں کے بڑے پیمانے پر ووٹ ملے تھے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سیکرٹری محمد عبدالرحیم قریشی نے اپنی تصنیف ”ایودھیا کا تنازعہ رام جنم بھومی فسانہ ہے حقیقت نہیں” میں بابری مسجد کے قاتلوں کے چہرے سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم اور بی جے پی لیڈر نرسیما راؤ کی سیاسی سازش قرار دیا ہے۔ ذیل میں کتاب کا ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے جس میں نرسیما راؤ کا شرمناک کردار عیاں ہوتا ہے۔ 6دسمبر 1998ء کے سیاہ دن تقریباً 11.45بجے کارسیوکوں نے بابری مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچانا شروع کیا۔ وی پی نرسیما راؤ، ایس پی چوہان اور دوسرے وزراء اور عہدیدار کارسیوکو ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہونگے کیونکہ تمام ہندوستانی جن کو یہ سہولت حاصل تھی یہی کر رہے تھے۔ بہرحال بی وی نرسیما راؤ نے جسٹس لبراہن کمیشن کے روبرو یہ اعتراف کیا کہ 12بجے دن ان کو بابری مسجد پر حملے کی اطلاع ملی۔ ہوم سیکرٹری گوڈبولے لکھتے ہیں:۔
”دوپہر کے تقریباً 12بجے کے وقت ہی ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو نے مجھے بتایا کہ بعض کارسیوک مسجد پر چڑھ دوڑے ہیں اور اس کو توڑنا شروع کر دیا ہے۔ عمارت پر حملہ کی اطلاع ملنے کے بعد میں نے وزیر داخلہ سے بات کی۔ اسی دوران ویدیا (ڈائریکٹر انٹیلی جنس) بیورو وزیر اعظم سے بات کر چکے تھے میں نے راج گوپال، نریش چند راؤ لاء سیکرٹری راؤ سے بات کی اور صورتحال پر نظر رکھنے کیلئے میرے آفس پر آنے کیلئے کہا وہ تقریباً ایک بجے میرے کمرے میں پہنچ گئے۔ ہم سب سی یہی رائے تھی کہ اب حکومت کے پاس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ریاستی حکومت پر چھوڑنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ارجن سنگھ پنجاب میں تھے انہوں نے دوپہر کے اولین وقت میں وزیر اعظم کو فون کیا اور انہیں بتایا گیا کہ وزیر اعظم کسی سے بات کرنے کیلئے دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں نے خود کو قفل لگا کر کمرے میں بند کر لیا ہے۔ ارجن سنگھ چار بجے دہلی واپس آئے اور سیدھے وزیر اعظم کے گھر پہنچے وہ ابھی بند کمرے سے باہر نہیں آئے تھے ارجن سنگھ یہ کہتے ہیں کہ میرے ذہن میں یہ صورتحال ایسی ہی تھی جیسی کہ روم جلتے وقت نیرو بانسری بجا رہا تھا”۔
دراصل بی جے پی تین ایجنڈوں کے سہارے انتخابات میں ووٹ مانگتی ر ہی ہے اس میں دو اب پورے ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنا اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر تھا۔ اب ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ باقی رہ گیا ہے۔ ان میں سے بی جے پی کو بابری مسجد نے خاص طور پر فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ سنگھ پریوار نے ہی ایودھیا تنازعہ کو ہندو فرقہ پرستی کی احیاء کے لیے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اس مسئلے کا ہر قدم پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ ایشو درحقیقت بھارت میں ہندو لہر پیدا کرنے اور مسلمانوں کو سیاسی طور پر حاشیہ پر پہنچانے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا۔ جس میں آر ایس ایس کو غیر معمولی کامیابی بھی ملی ہے۔۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ بھی بی جے پی کی طرح ہندو انتہا پسندی کی محافظ بن کر سامنے آئی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سے سیکولر ہندوؤں کا بھی یہ کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مضحکہ خیز اور تضاد بیانی پر مبنی ہے۔سپریم کورٹ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتا ہے کہ میرباقی نے 1528عیسوی میں بابری مسجد کی تعمیر کی تھی اور یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اس جگہ پر کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی ہے۔

صور اسرافیل تھا یہ سانحہ
سوئی امت کو جگانے کے لیے


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں