روح اور انسانی حیات…! قسط نمبر 7 (میر افضل خان طوری)

وجود انسانی شعاع لوح خفی کا مظہر ہے۔حضرت انسان دو جدا قوتوں یعنی روح اور جسم کا حامل ہے۔ یعنی وہ زمینی اور آسمانی دونوں حقائق اور صفات کا مرکب ہے۔ انسان جسم کے لحاظ سے فانی ہے اور روح کے لحاظ سے ابدی حیثیت رکھتا ہے۔

انسانی علوم کے مفکریں کا کہنا ہے کہ روح اور جسم ایک دوسرے کے ساتھ بلا فصل متصل ہیں۔ کسی ایک کا اعراض دوسرے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ وجود انسانی کو ایک ہی وقت میں دو قسم کے نمو کی ضرورت ہے۔ ایک مادی نشونما ہے جبکہ دوسرا روحانی۔ مادی نشونما انسان کے دسترس سے باہر ہے جبکہ روحانی نشونما انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ یعنی وہ اپنے خصائل اور عادات کو بدلنے اور پروان چڑھانے پر قادر ہے۔

علم الاخلاق کے عظیم مفکر آیت اللہ سید مجتی موسوی الاری فرماتے ہیں کہ انسانی روح میں کمال مطلوب کے حصول کی بہت گہری خواہش پائی جاتی ہے۔اگر یہ خواہش نہ ہوتی تو انسان اپنے بچپن کے حدود سے آگے نہ بڑھ پاتا” ۔ یہ جملے اپنے اندر بہت زیادہ گہرائی رکھتے ہے۔ ہمیں دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ بہت سے لوگ ساری زندگی تو گزار دیتے ہیں مگر عقل و شعور کے لحاظ سے وہ پچپن سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔

انسان کو جسمانی نشونما کیلئے مناسب غذا ، آرام ورزش اور سیر و تفریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ روحانی نشونما کیلئے انسان کو “علم” کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان اپنے جسم کی بہترین نشونما کیلئے تمام مضر صحت کھانوں اور اشیاء سے پرہیز کرتا ہے۔ انسان زہریلی چیزوں کو کھانے اور استعمال کرنے میں ہر طرح سے اختیاط کرتا ہے۔ انسان اپنے جسم کو بیرونی خطرات سے بچانے کیلئے خفاظتی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ انسان اپنی جسمانی نشونما کی بہتری کیلئے ساری زندگی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح انسان کو روحانی طور پر بھی انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان اپنی روحانی نشونما میں لاپرواہی سے کام لے تو ان کی روحانی حیات شدید خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے۔ جس طر مضر صحت اشیاء سے اجتناب ضروری ہے۔ اسی طرح ان تمام خصائل اور عادات سے اجتناب کی ضرورت ہے جو انسان کے اخلاقیات اور کردار پر اثر انداز ہو جاتے ہیں۔ تکر، بغض ، حسد، بزدلی، طمع،لالچ اور جھوٹ وغیرہ انسان کی روحانی نشونما کو متاثر کرتے ہیں۔

جس طرح جسمانی بیماریوں کا علاج ضروری ہوتا ہے اسی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی ضروری ہے۔ جس طرح جسم کی صفائی ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح انسانی سوچ اور فکر کو بھی پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انسان صحت افزاء اور مضر صحت غذائی اجناس میں تمیر کرنا چھوڑ دیتا ہے تو ان کی جسمانی صحت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ دسیوں بیماریاں ان کو گھیر لیتی ہیں۔ اسی طرح انسان جب اچھائی اور برائی ، نیکی اور بدی میں تمیز کرنا ترک کر دیتا ہے تو انسان کی اخلاقی موت واقع ہوجاتی ہے۔ انسان کا کردار مر جاتا ہے۔ پھر اس زندہ انسان اور لاش میں کوئی فرق نہیں رہتا۔

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پیچھلے قسط میں ہم نے نفس امارہ کا تفصیلی ذکر کیا تھا۔ مطلب نفس امارہ نفس کی وہ کیفیت ہے کہ جس میں انسان نیکی اور بدی کا تمیز نہیں کر سکتا۔
انفس امار سے اگلا درجہ نفس لوامہ کا ہے۔ نفس کی اس کیفیت پر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ “قسم ہے نفس لوامہ کی”۔ نفس لوامہ کی اہمیت قرآن مجید سے واضح ہے۔ یہ نفس انسانی کی اس کیفیت یا حالت کا نام ہے کہ جس میں انسان کو اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کا ادراک ہوجاتا ہے۔ انسان نفس لوامہ کی حالت میں جب بھی کوئی برائی کرتا ہے تو اسے فوری طور پر اس کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ آئندہ اس برائی سے بچنے کی تدابیر کرتا ہے۔ یعنی یہ احسان گناہ کی کیفیت کا نام ہے۔

فرانسیسی دانشور ڈاکٹر کرل کہتے ہیں کہ ہمیں نور کو ظلمت اور صدا کو سکوت سے فرق کرنے کی عادت ہونی چاہئے۔ خوبی اور بدی میں فرق کرنا چاہئیے۔ ایسی عادت کے بعد ہی ہم برائیوں سے پرہیز کر سکیں گے اور اچھائیوں کو اپنا سکیں گے”۔ یہ نفس انسانی کی بہت اہم کیفیت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان اچھائیوں اور برائیوں میں تمیز کرنا سیکھ جاتا ہے۔ روح اور جسم کی یہ کیفیت انسانی شخصیت کو عوج کمال عطا کرتی ہے۔ اسی مقام سے انسانی نفس کے بلندی کا سفر شروع کرتا ہے۔


آگے جاری ہے


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں