مردہ قوم کی جنازوں سے دشمنی! (ساجد خان)

فیس بک پر چند دنوں سے تصاویر کے ساتھ ایک خبر وائرل ہو رہی ہے جس میں صرف چار افراد ایک جنازے کو اٹھائے قبرستان کی طرف جا رہے ہیں۔ تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ یہ واقعہ پنجاب کے شہر کھاریاں میں پیش آیا جہاں ایک نوجوان کی ایکسیڈنٹ میں موت واقعہ ہو گئی۔
جنازے اور تدفین کے وقت یہ بحث شروع ہو گئی کہ یہ شخص شیعہ تھا اس لئے اس کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے،جس پر چار افراد نے ہی جنازہ اٹھایا۔

یہ خبر میرے لئے بہت حد تک نا قابل یقین واقعہ تھا کیونکہ کھاریاں کبھی اتنا متعصب شہر نہیں رہا اور وہاں اہل تشیع کی اچھی خاصی تعداد کے ساتھ ساتھ اہلسنت بریلوی مسلک کی بھی بہت بڑی تعداد آباد ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا وہاں اہل تشیع نا رہتے ہوں اور قریبی علاقے کے اہل تشیع کو اس کی خبر ہی نہ ہوئی ہو،میں اب تک فیس بک پر یہی دیکھتا رہا کہ شاید اس خبر کی تردید آ جائے یا کوئی علاقے کا شہری اصل واقعہ سے آگاہ کرے مگر ابھی تک کسی نے بھی تردید نہیں کی بلکہ صحافت سے منسلک چند دوستوں نے اس خبر کے سچے ہونے کی تصدیق کر دی۔

پنجاب میں مذہبی منافرت کے باوجود یہاں باقی صوبوں سے ماحول قدرے بہتر رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں مذہب کی بنیاد پر الگ علاقے یا سوسائٹیز نہیں بنائی جاتیں، تقریباً ہر ضلع، تحصیل بلکہ گاؤں میں آپ کو شیعہ اور سنی بستے نظر آئیں گے۔

پنجاب میں شیعہ سنی رشتہ داری بھی عام سی بات ہے، کسی کا باپ شیعہ تو کسی کی ماں شیعہ۔ آج بھی شیعہ سنی رشتے ہوتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ سے ہی مسلکی بنیادوں پر سیاست کرنے والی جماعتوں بلکہ اسلام کا سہارا لے کر اقتدار حاصل کرنے والی مذہبی جماعتوں کو ہمیشہ رد کیا ہے۔ مذہبی اختلافات کے باوجود انسانی رشتے قائم رہتے ہیں پھر کھاریاں میں ایسا افسوسناک واقعہ کیوں پیش آیا؟

اگر یہ واقعہ سچا ہے تو اس کی مجھے ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ اہل تشیع کے ساتھ تعلقات نا رکھنے کی سوچ دیوبندی مکتبہ فکر میں تو پرانی چلی آ رہی تھی مگر بریلوی مسلک کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

بریلوی محرم کے جلوسوں میں شریک ہوتے تھے اور شیعہ میلاد کی محفلوں میں شرکت کرتے تھے، پھر بریلوی مسلک میں خادم حسین رضوی جیسے شخص کو متعارف کروایا گیا گو کہ اس کا مقصد صرف ن لیگ کی دشمنی تھی اور چاہنے والے چاہتے تھے کہ پنجاب سے نواز لیگ کا خاتمہ کیا جائے، اس کے لئے انہوں نے دیوبندی مسلک کی جماعتوں کو ویسے ہی الگ کر لیا تھا، حافظ سعید اور سپاہ صحابہ جیسی کالعدم جماعتوں کو پابندی کے باوجود الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کے باوجود بھی انہیں خوف تھا کہ وہ ابھی بھی نواز لیگ کا ووٹ بینک توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ لہذا اہل تشیع کی ایم ڈبلیو ایم کو بھی اس اتحاد میں شامل کر لیا، اب صرف ایک طبقہ ایسا بچا تھا جس سے خطرہ تھا کہ اگر اس نے نواز لیگ کو ووٹ دے دیا تو ان کا سارا پلان خاک میں مل جائے گا اور وہ تھا بریلوی مسلک۔اس میں سے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کو پہلے ہی استعمال کر لیا گیا تھا اور اس استعمال سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہی سہی سیاسی ساکھ بھی ختم ہو چکی تھی،اس لئے انہوں نے خادم حسین رضوی کو متعارف کروایا اور بہترین طریقے سے استعمال بھی کیا۔

خادم حسین رضوی کی اگر ہم بات کریں تو اسے کوئی بھی عالم دین کا درجہ نہیں دے سکتا، اس کی تقاریر سننے والے اس بات کی تائید کریں گے کہ اس نے کبھی بھی علمی بات نہیں کی، جب بھی اپنے علم کی تعریف کرنے کی کوشش کی تو یہی کہا کہ میں بتاتا ہوں کہ فلاں لفظ کے نیچے زیر ہے یا زبر، فلاں تفسیر میں نے پڑھی ہوئی ہے،میں نے اتنے سال مدرسے میں گزارے وغیرہ وغیرہ۔

اس کے علاوہ اس سے میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں سنی جسے سن کر واقعی محسوس ہو کہ واقعی یہ شخص علمی شخصیت ہے، وہ جب بھی بولا بس یہی بولا کہ میرے سامنے کتے آ گئے کیونکہ میں نے فلاں شخص کو کتا کہہ دیا یا رات کو جنات آ گئے۔ ممتاز قادری نے موت کے بعد بھی کفن میں سے تلواریں نکال لیں۔

یہ سب وہی کہانیاں تھیں جو پیری مریدی کے شوقین حضرات اپنے پیروں کے بارے میں سنتے آۓ ہیں اور ان پر یقین بھی کرتے آۓ ہیں،اسی لئے جب بھی اس نے ایسی باتیں کیں، سننے والوں نے سبحان اللہ کے ورد کے ساتھ یقین کیا۔

ہمارے ملک کا نظام چلانے والے کسی اور کام میں بہترین ہوں یا نا ہوں لیکن ایسے افراد ڈھونڈنے میں ضرور ماہر ہیں کہ جو ان کے مقاصد پر من و عن عمل کریں لیکن ایک غلطی جو کی جاتی ہے وہ یہ کہ ان کے تیار کردہ لیڈران کی اکثریت انتہا پسند ہوتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایک وقت پر اپنے ہی بنائے ہوئے مہرے ان کے ہی خلاف ہو جاتے ہیں۔

الطاف حسین ہو یا حق نواز جھنگوی، عمران خان ہو یا خادم حسین رضوی، یہ سب ایک ہی فیکٹری کی پیداوار ہیں اور سب اپنے اپنے شعبے میں انتہا پسند سمجھے جاتے ہیں، خادم حسین رضوی کو جوں ہی اہمیت ملی اس نے بلا تفریق سب کی ماں بہن کی گالیوں سے تواضع کی، یہاں تک کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بھی نہیں بخشا۔

جب سارے ہی لائن میں لگے ہوئے تھے تو پھر اہل تشیع تو ویسے ہی آسان ہدف سمجھا جاتا ہے لہذا ان پر بھی اچھے سے ہاتھ صاف کئے گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو طبقہ اہل تشیع کے ساتھ کچھ حد تک دوستانہ رویہ اپنائے ہوئے تھا، اس میں بھی تقسیم ہوتی گئی۔

آپ اگر حالات حاضرہ سے واقفیت رکھتے ہیں تو گزشتہ دو سالوں کے دوران محرم الحرام میں پاکستان میں جہاں کہیں بھی جلوس روکے گئے یا کشیدگی دیکھنے میں آئی، ان واقعات کی اکثریت میں تحریک لبیک والوں کے ساتھ مسئلہ کھڑا نظر آیا۔
لاہور اور کراچی میں اسی جماعت کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوئی بلکہ گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر خواتین تک نے اہل تشیع کے جلوس پر پتھراؤ کیا۔

آپ کو شاید یاد ہو گا کہ جب تحریک لبیک اپنے عروج پر تھی تو میں اکثر کہتا تھا کہ یہ جماعت پنجاب میں طالبان سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی کیونکہ طالبان آبادی سے دور رہنا پسند کرتے تھے یا خیبر پختونخواہ کے چند علاقوں میں پائے جاتے تھے مگر یہ ہر شہر اور ہر محلے میں آباد ہیں اور ان میں انتہا پسندی پورے معاشرے کے لئے خطرناک ثابت ہو گی۔

یہ تو بھلا ہو خادم حسین رضوی اور پیر افضل کی بیوقوفی کا کہ وہ جلد ہی ان کو گالیاں دینے لگ گئے جنہوں نے انہیں بنایا تھا، جس پر ریاست کو مجبوراً ان کے خلاف ایکشن لینا پڑ گیا اور ان کو لگام ڈال دی گئی لیکن اس مختصر عرصے میں ہی انہوں نے بریلوی مسلک میں جتنی نفرت پیدا کرنی تھی وہ کر لی۔

پاکستان میں کوئی بھی مذہبی جماعت جتنی بھی کمزور ہو جائے لیکن وہ اہل تشیع اور اقلیتوں کے لئے پھر بھی طاقتور رہتی ہے بلکہ ریاست انہیں اس کام پر باز پرس بھی نہیں کرتی۔ اس لئے تحریک لبیک اب سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنے کے قابل تو نہیں رہی مگر جلوس روکنے کی طاقت آج بھی رکھتی ہے۔

کھاریاں میں بھی شاید کچھ ایسا ہی ماحول ہوا ہو گا کیونکہ مرنے والا نوجوان شیعہ نہیں تھا بلکہ اہلبیت علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والا سنی ہونے کی کی وجہ سے محرم کے جلوسوں میں شامل ہوا کرتا تھا یا شاید نشہ کی وجہ سے معاشرے میں دھتکارا ہوا یہ شخص جلوسوں میں اس لئے بھی شامل ہوتا ہو کہ بھوک مٹانے کے لئے کھانا میسر ہوتا تھا اور یہاں اسے کوئی دھتکارتا بھی نا ہو، یہی وجہ تھی کہ اس کی وفات کے بعد اہلسنت کی مسجد میں جا کر ہی نماز جنازہ پڑھنے کی درخواست کی گئی مگر چند نمازیوں کے اعتراض کی وجہ سے پیش امام نے بھی نماز پڑھانا مناسب نا سمجھا، حالانکہ مولانا نے تصدیق کے لئے پوچھا کہ کیا وہ واقعی شیعہ تھا مگر اس بات کی کسی نے تصدیق نہیں کی البتہ اس نوجوان کے محرم کے جلوسوں میں شرکت اور ماتم کو شیعیت قرار دے دیا گیا۔

یہ نفرت ہمیں لے ڈوبی ہے کہ مساجد میں اللہ پاک کی نماز تو فرقوں میں بٹ ہی چکی تھی اب مساجد میں جنازے بھی عقائد دیکھ کر پڑھائے جاتے ہیں اور جنازے کو کندھا بھی فرقہ کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔

یہ واقعہ ہماری اخلاقی پستی کی بد ترین مثال ہے کہ ہم زندوں کے ساتھ اختلاف رکھتے ہی ہیں، مردوں کے ساتھ بھی ہماری دشمنی ختم نہیں ہوتی۔

ریاست کو اس واقعے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ پاکستانی قوم کس راستے پر چل پڑی ہے کہ ایک سنی نوجوان کی محبت اہلبیت علیہ السلام کو بھی شیعیت اور کفر قرار دے کر نماز جنازہ پڑھنے سے کیوں انکار کیا جاتا ہے لیکن حکومت ہو یا حکومتی ادارے انہیں بہت سے دوسرے غیر ضروری کاموں سے ہی فرصت نہیں ہے کہ وہ قوم میں پیدا ہونے والی ان نفرتوں کو کم کرنے پر توجہ دیں۔

یہ نفرتیں اب اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ اب چارسدہ میں ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے خلاف اس لئے مظاہرے کئے جا رہے ہیں کہ وہ شیعہ ہے حالانکہ وائس چانسلر کی ذمہ داری بچوں کو نماز پڑھانا نہیں ہوتا اور نا ہی فقہ پڑھانے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے، بلکہ وہ نوجوان نسل کو دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے مقرر ہوتا ہے۔ جس میں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والے اور ہاتھ کھول کر پڑھنے والوں میں تفریق نہیں کی جاتی مگر پاکستان میں ہر چیز میں عقیدہ دیکھا جاتا ہے۔

ان حالات میں نا ہی نیا پاکستان بن سکتا ہے اور نا ہی ملک ترقی کر سکتا ہے بلکہ ملک اور قوم دونوں ہی اندھیرے، جہالت اور پستی میں چلے جاتے ہیں۔

ریاست کو ان نفرتوں سے نکلنا ہو گا، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  خاور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں