چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

جب چاروں طرف جہالت کا اندھیرا ہو، جہاں علم عمل سے محروم ہو، جہاں تربیت پامال ہو رہی ہو، جب ذہنوں پر انا پرستی، حرص، لالچ، چاپلوسی، طمع، حسد اور عناد کا بسیرا ہو، جہاں انسان کی کل قیمت اس کا مال و زر ہو، جہاں استاد پر ڈنڈے برسائے جاتے ہوں، جہاں یتیم، نادار اور غریب جینے کے حق سے محروم ہوں، جہاں شہر کی گلیاں، چوراہے، مساجد، مدرسے، کالج، یونیورسٹیاں اور دارالامان تک جنسی استحصال کے آڈے بن چکے ہوں اور خون کے رشتے بچوں کیلئے غیر محفوظ ہوں، جہاں ملاوٹ اور رشوت خوری کا بازار گرم ہو، اس معاشرے میں مثبت سوچ رکھنا اور حق کی بات کرنا ناقابل تلافی جرم ہوتا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ انسان کی اپنی ناشکری ہے۔ جب قوم اجتماعی طور پر ناشکری ہوگی تو اس طرح کے ہیبتناک جرائم کی ابتدا بھی ہوگی۔

قدرت نے انسان کو بے مثال نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس دنیا میں انسان کے آنے سے پہلے قدرت انسان کے لئے تمام ضرریات زندگی کا اہتمام کرتی ہے۔ بچہ بعد میں آتا ہے اس کیلئے ان کی غذاء پہلے آتی ہے۔ پھر قدرت ان کی پرورش پر ان کے والدین کو مامور کرتی ہے جو ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اپنی جان تک نثار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

مگر ان سب نعمتوں کے باوجود ذات باری تعالی نے انسان کو دعا کا وسیلہ بھی عطا کیا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو مذید مانگے سے منع نہیں فرمایا ہے۔ انھوں نے مانگنے والوں کو عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر یہی انسان جب ان سارے نعمتوں کو پا لیتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے والدین کی ناشکری اور نا فرمانی پر اتر آتا ہے۔ پھر وہ اپنے رب کے عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔ اس کے بعد ہر اس شخص کی ناشکری کرتا ہے جس نے ان پر احسان کیا ہوتا ہے۔

انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کفران نعمت کا ہے۔ انسانوں کی اکثریت شکرگزاری کا سلیقہ نہیں جانتی۔ انسان ہمیشہ دوسروں کے پاس موجود چیزوں کو پانے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور اپنے پاس موجود نعمتوں کے انمول خزانے کو نذر انداز کر دیتا ہے۔ انسان ہمیشہ مزید اور مزید کے چکر میں اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو گنوا دیتا ہے اور ان کو اپنے پاس موجود نعمتوں کو انجوائے کرنے کا موقع زندگی بھر نہیں ملتا۔

ان کی سب سے بڑی وجہ ان نعمتوں کی ناشکری اور ناقدری ہے۔ اگر انسان اللہ تعالی کی ایک ایک نعمت پر ان کا شکر ادا کرنا سیکھ جائے تو وہ لالچ، لمع، حرص، حسد، کینہ اور بغض جیسی خطرناک روحانی بیماروں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ شکرگزار انسان کو بڑی آرام سے پرسکون نیند آجاتی ہے۔ ان کا ذہن مثبت سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ ان کو طمانیت قلب نصیب ہو جاتی ہے۔ وہ پرامید ہوجاتا ہے اور ان کا یقین مضبوط ہوجاتا ہے۔ اس طرح ان کے مادی جسم پر بھی مثبت اثرات پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بھی بہت سی خطرناک بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اور اگر وہ انسان خدانخواستہ کسی بھی جسمانی بیماری میں مبتلا ہے۔ تو اپنے پاس موجود نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور مثبت سوچنے سے انکی بہت سی جسمانی بیماریاں بھی ٹھیک ہوسکتی ہیں۔

نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ ہماری سوچ کا اثر ہمارے جسم پر بھی پڑتا ہے۔سوچ اور فکر میں توزان کا قائم نہ رہنا جسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہماری بےسکونی کی سب سے بڑی وجہ مثبت سوچ کا فقدان ہوتا ہے۔ جب ہم مثبت سوچتے ہیں تو ہمارے جسم کی نشونما بہتر ہوجاتی ہے۔

انسانی جسم توازن چاہتا ہے۔ شرانگیزی اور انتہا پسندی کی ابتداء انسان کے اپنے وجود سے شروع ہوتی ہے۔جب کوئی انسان اپنے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا وہ دوسروں کے ساتھ کیسے انصاف کرسکتا ہے۔ سب سے پہلی عدالت انسان کا اپنا جسمانی وجود ہے۔ عدل کی ابتد اپنے وجود سے ہوتی ہے۔ یہ دنیا کی پہلی عدالت ہے۔ جب وجود میں عدل قائم ہوگا تو ہاہر کی دنیا میں خود بخود امن قائم ہو جائے گا۔ یہ تب ممکن ہے کہ ہمارے جسمانی قوتوں میں توازن قائم ہو۔ ہمیں جسمانی قوتوں کو قابو میں رکھنے کا ہنر آتا ہو۔

توازن کا مطلب ہے کہ ہمارے قوت غضبیہ، قوت شہویہ قوت عاقلہ وغیرہ سب اپنے اپنے حدود میں کام کرتے ہوں۔ اگر یہ توازن قائم نہیں رہتا تو پھر دوسرے انسان ہمارے شر سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
یہ توازن تب ہی ممکن ہے جب ہم شکر گزاری کا فن سیکھ جائیں گے۔

شکرگزاری ایک چراغ ہے اس چراغ کو اپنے دل میں روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہمارے دل روشن ہونگے تو تو ہاہر کی دنیا خود بخود روشن ہو جائے گی۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں