جانبدار میڈیا اور وکلاء ایشو پر قصور وار کون؟ (شیخ نعیم کمال)

تو تیر آزما ہم جگر آزماتے ہیں۔ چونکہ بندہ ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور شور شرابے کو پسند نہیں کرتا بایں وجہ سوچا کہ اپنے وکلاء بھائیوں کو بذریعہ قلم اخلاقی سپورٹ باہم پہنچائوں۔

قارئین گرامی قدر چند ہفتے قبل پی آئی سی لاہور میں وکلاء پر بہیمانہ تشدد کا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں جان بوجھ کر تاحال ذمہدارن کا تعین نہ کیا گیا ہے، تا کہ وکلاء کو بدنام کرنے کیلئے جو دروازہ کھل چکا، کھلا رہے اور نام نہاد اصطلاح وکلاء گردی پر مہر تصدیق ثبت رہے۔ چہ جائیکہ حکومتی مشینری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنازع کا منصفانہ حل نکالتے بلکہ حکومتی مشینری بھنگ پی کر سوئی رہی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر گندے انڈے وکلاء کو وکلاء کے ساتھ اور ڈاکٹرز کے ساتھ لڑانے میں خطیر کردار ادا کرتے رہے۔ یقینا اس پلید تگ و دو کا منفی نتیجہ تو برآمد ہونا ہی تھا۔ لہذا چند روز قبل ایک گندے انڈے نام نہاد ڈاکٹروں کے پلید نمائندہ نے ایک وڈیو پیغام میں وکلاء کو للکارا اور قبیح اور نازیبا زبان استعمال کی۔ جسکے جواب میں وکلاء کے اندر یقیناً اشتعال پیدا کیا اور وکلاء کے اندر موجود کالی بھیڑوں نے اس پر مزید پیٹرول چھڑکا۔ نتیجتا آج مؤرخہ 11 دسمبر کو پک لاہور میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ جسکی راقم بھی مذمت کرتا ہے کیونکہ تہذیب یافتہ اقوام اور لوگوں کے ہاتھوں ایسے واقعات ہر گز پیش نہیں آیا کرتے۔

قارئین گرامی قدر! بندہ نے مذکورہ نزاع کے پیچھے ممکنہ عوامل پر غور و فکر کیا اور انتہائی احتیاط سے تحریر ہذا لکھ رہا ہوں کہ اعتدال کا دامن ہر گز نہ چھوٹے۔ کیونکہ قوموں کی زندگی میں قلم تلوار سے زیادہ اثر انداز ہوا کرتی ہے۔ راقم کی ناقص فہم و رائے میں درج ذیل عوامل ہیں جنکی بناء پر درج بالا ازیت ناک واقعات پیش آئے:

1۔۔۔نااہل حکومت کی شدید غفلت۔
2۔۔۔ڈاکٹر گردی۔
3۔۔۔جانبدار اور شرارتی میڈیا و سوشل میڈیا۔
4۔۔۔وکلاء کی اندرونی سیاست اور دھڑا بندی
اور قارئین گرامی قدر سب سےکم درجہ عوامل جسکو نظر انداز کیے بغیر میں آگے بڑھا تو تحریر ہذا سے انصاف نہ ہو گا وہ ہے جناب من۔
5۔۔۔وکلاء گردی۔

طوالت کے خوف سے ہر پانچ ہائے عوامل مذکورہ پر اختصار سے عرض کرتا چلوں کہ جب پہلا وکلاء پر تشدد کا واقعہ پیش آیا تب بھنگی اور نااہل حکومت نے نوٹس کیوں نہ لیا؟ اور ذمہدارن کو بروقت نوکری سے فارغ کر کے قانون کے حوالے کیوں نہ کیا؟ اگر بروقت نوٹس لے لیا ہوتا، وزیر اعلیٰ پنجاب، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری صحت میڈیا پر آتے اور ذمہدارن کے خلاف کی ہوئی کارروائی بتا کر وکلاء کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے تمام عوامل بروئے کار لاتے تو آج فیاض الحسن چوہان کے سر کے بال نہ نوچے جاتے۔ آج نوٹس لینے کا کیا فائدہ جب پانی حد سے گزر گیا۔ نوٹس تب کیوں نہ لیا جب ایک گندے انڈے ڈاکٹروں کے نمائندے نے میڈیا پر آکر وکلاء کو للکارا؟ حکومتی مشینری کو اسکے نتائج کا اگر اندازہ نہ تھا تو براہ کرم اپنے گھر کو جائیں آپ جیسے حکمت سے خالی حکمران اس بگڑی ہوئی قابل رحم قوم کے مسیحا نہیں ہو سکتے۔ براہ کرم اپنی اس نابلد سوچ کو ریاست مدینہ سے مت جوڑیں۔ بناء بر ایں بلا شبہ ان افسوس ناک واقعات کی ذمہ دار یہ نابلد حکومت ہی ہے۔ اور حکومت کی واضح خاموشی کے پیچھے کوئی بڑی تبدیلی اور سازش کی بو محسوس کرتا ہوں۔

ڈاکٹر گردی بلا شبہ پچھلے کئی سالوں سے بام عروج پکڑ رہی ہے اور قوم ان مسیحاؤں کو قصابوں میں بدلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر موجود گندے انڈوں کی بیشمار ویڈیوز ڈاکٹر گردی کی واضح مثال ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر گردی کا درست علاج نہ تو سابقہ اور نہ ہی موجودہ حکومت دریافت کر سکی۔ نام نہاد مسیحا بھی تہذیب و تعلیم سے عار معلوم ہوتے ہیں، مگر اس انارکی میں بھی حکومتوں کی ناقص حکمت عملی اور معاشی نظام کا بحران بنیادی کردار رکھتا ہے۔

میڈیا گردی: میڈیا کسی ملک کے معاشرتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور دور جدید میں میڈیا ففتھ جنریشن وار کے طور پر مستعمل ہے۔ بلا شبہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح وطن عزیز میں میڈیا میں سب سے زیادہ گندے انڈے اور غدار ناچ رہے ہیں جنکو کنٹرول کرنے میں ریاست مدینہ کے ساتھ ساتھ سابقہ حکومتیں بری طرح ناکام رہیں اور میڈیا بھی دیگر شعبہ ہائے کی طرح ناقابل کنٹرول ہے۔ ابھی وکلاء کے معاملے میں بھی میڈیا یکطرفہ اور متعصبانہ رپورٹ کرنے پر لگا ہوا ہے۔

جناب عالی! چوتھا عوامل جو مجھے نظر آیا وہ ہے بار کی سیاست وکلاء کے سیاسی دھڑا بندی۔ جی ہاں نزاع مذکورہ کا مدبرانہ حل تلاش کرنے کی بجائے کچھ لیڈران گرامی نے اپنے مخالف امیدوار کو نیچا دکھانے کی خاطر بار میں منفی سیاست اور ریزہ کاری سے بھرپور کام لیتے ہوئے اپنا منفی کردار ادا کر کے وکلاء کو مشتعل رکھا ہے۔ اور اس ایشو کو اپنی نام نہاد سیاست کی زینت بنایا اور بروقت اپنے مشن میں کامیاب ہونے کی کوشش فرمائی۔

راقم اس پر صرف اتنا ہی لکھے گا کہ ایسے لیڈر کالے کوٹ کے عروج کو دوام نہیں دے رہے بلکہ اسے نقطہ زوال کی طرف لیجانے میں نامعلوم عوامل کے ہاتھوں کھلواڑ بن رہے ہیں۔ جیسے کسی اور کے کرنے کا کام کچھ وکلاء لیڈران سے لے لیا گیا ہے۔

آخری اور کمزور درجہ کا عمل مگر اسکو میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے وہ ہے وکلاء گردی۔ جی ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے یہ دو قسم کی ہوتی ہے اولا مثبت جس میں وکلاء اپنے شعبہ کی عزت نفس پر آنچ نہ آنے کیلئے میدان میں اتر جاتے ہیں اور یہ انکا بنیادی حق اور وکلاء اتحاد اور یہ نعرہ کے وکلاء زندہ ہیں کا مصداق ہوتا ہے۔ دوسری بلا شبہ منفی ہوتی ہے جس کے کردار ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد اور کج ذہنی و فہمی میں مبتلا عناصر ہیں جو باآسانی کسی منفی و تخریبی قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں۔ یہاں مجھے کہنا پڑے گا کہ وکلاء لیڈران میں بھی قدرے حکمت کی کمی واقع ہو جاتی ہے جو نوجوان وکلاء کی بر وقت اور درست کوچنگ نہیں کر سکتے۔

مختصراً درج بالا حقائق و دلائل کی روشنی میں وکلاء ہی قصوروار نہیں! اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو صاحب پھر عقل کے ناخن لیں کیونکہ وکلاء زندہ ہیں اور وکلاء گردی نہیں روکی جا سکتی۔ آج کے واقعہ سے واضح پیغام تخریہ ہوتا ہے کہ سسٹم کولیپس کر چکا ہے۔ حکومتی عہدیدار بھڑکیں اور کھوکھلے نعروں کی بجائے مثبت حکمت عملی لائیں ورنہ گھر جائیں۔ اور میڈیا آئینے کے سارے رخ درست دکھائے ورنہ عوام کا اعتماد اٹھتے اٹھتے تمام شعبہ ہائے زندگی سے اٹھ جائے گا اور پھر میرا اندیشہ فردا کہتا ہے کہ پھر سرخ انقلاب ہی راستہ نجات رہ جائے گا۔

وکلاء سے صرف اتنا کہوں گا کہ وکیلوں نے پاکستان بنایا تھا اور وکلاء نے ہی بچانا ہے۔ اپنے آپ کو تہذیب یافتہ، اعلی تعلیم یافتہ اور اقبال کے شاہین ثابت کریں ورنہ، صورت حال یہ ہے کہ معاشرے میں وکیل کو کوئی رشتہ دینے اور کرائے پر مکان تک دینے کو راضی نہ ہے۔ یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں۔

واللہ اعلم باالصواب


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں