بلاعنوان…! (وجاہت عمرانی)

احمد دادی کے ساتھ رضائی میں اس لیئے لیٹتا جو دادی روز رات اس کو سچی کہانیاں سناتی۔ دس سالہ احمد کو دادی کے حقے کی بُو اس لیئے پسند تھی کہ اس میں دادی کی سانسوں کی خوشبو بھی شامل ہوتی تھی۔ کڑوے تمباکو کی بُو سردی کے ساتھ آج بھی مل کر رضائی میں سرائیت کر گئی تھی۔ ٹی وی پر کشمیریوں کا احتجاج دکھایا جا رہا تھا۔ دادی کہانی سناؤ ناں! احمد بیٹا، ہندوستان نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا، ماؤں کی کوکھ اجاڑ دی۔ ٹی وی پر روزانہ دیکھتے نہیں کشمیر میں بم کے دھما کے اور لوگوں کے بکھرتے وجود، بے بسی، لاچاری، دکھ کرب۔ ایسا کرب ہے کہ جگر کٹا جاتا ہے، کتنے دلوں کے اندرآگ جل رہی ہے اور اسکی تپش میں پاکستان کا ہر فرد سلگ رہا ہے۔ بچوں کی آہیں، جوان اور بیواؤں کی سسکیاں، ماؤں کی چیخیں۔ ننھے احمد کے دل کی دھڑکن کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے ہر لفظ کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اب بس احمد بیٹا! کشمیری مظالم کو چھوڑو۔ باقی کہانی کل سناؤں گی اب اٹھو اور ٹی وی کا چینل تبدیل کر و“میرے پاس تم ہو“ کی آخری قسط لگنے کا وقت ہو گیا ہے۔ مجھے سکون سے دیکھنے دو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں