وادی سون پارٹ 2: سکیسر اور اچھالی جھیل…! (سید صفدر رضا)

کل کی تھکاوٹ جو تلاجا سٹی کی ہائکنگ اور ٹریکنگ کی وجہ سے ہوئی تھی رات کے کھانے سے دور ہو تو گئی تھی کیونکہ معظم فیاض بھائی کی محبت تھی کہ اماوس کی رات میں جب چاند پزم سے غائب تھا اور ستارے اپنی جگمگاہٹ سے آسمان کو دلفریب بنارہے تھے۔ عین اس وقت ہی بون فائر کا اہتمام کر کے لذیذ ضیافت سے ہمیں محظوظ کیا شب نے ماحول کو سیاہ چادر اوڑھا دی اور ہم نجانے کس لمحے نیند کی وادی کے مسافر ٹھہرے صبح ناشتے سے فارغ ہوئے تو آوارہ منش طبعت ہونے کی وجہ سے آوارگی پر کمر کسی وادی سون دراصل سیاحوں کے لئے مکمل پیکج رکھتی ہےسرسبزو شاداب و زرخیز لہلہاتے کھیت گھنے جنگلات دلکش و حسین مناظر چشموں چھوٹی بڑی آبشاروں نمکین و میٹھے پانی کی جھیلوں سطح سمندر سے 5000 فٹ سے بھی زائد بلند سکیسر وادی سون کا بلند ترین مقام ہے آج بھی معظم بھائی کی تجویز پر ہمنے وادی سون میں ہی گھومنے کا پروگرام بنایا اور سب سے پہلےڈیپ شریف جانے کے ارادے سے سفر کا آغاز کیا جیسا کہ بتا چکا ہوں کہ نوشہرہ کو وادی سون تحصیل کی سب تحصیل کا درجہ حاصل ہے یہاں چھوٹی بڑی سہولیات میسر ہیں۔ ہوٹل ریسٹ ہاوس بازار وغیرہ ہم نے نوشہرہ کو مرکز مانتے ہوئے ڈیپ شریف کا رخ کیایہ سکیسر جاتے ہوئے ایک سڑک بائیں جانب نکلتی ہے۔ اچالی جھیل سے تقریبا نصف سفر بنتا ہے سکیسر روڈ سے جب بائیں جانب جاتے ہوئے قریبا آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر جاکر گاڑی وہیں کھڑی کی اور پیدل سفرتقریبا پون کلومیٹر ایک چھوٹی راہداری پر طے کرنے کے بعد خوبصورت مقام آتا ہے ایک چھوٹی سی آبشار ہے۔ سفید مرمریں چٹانیں صاف و شفاف پانی اسماں کے عکس سے نیلگوں تھا ایک ٹریک کے ذریعے ندی تک جاکر قادروقدیر کی قدرت دیکھ چکے دل نہیں بھر رہا تھا۔ عجیب سی روحانیت کا احساس من کو فرحت بخش رہا تھا یہاں کا راستہ مرکزی شاہراہ یا کفری گاؤں سے آتا ہے۔ لب سڑک چشموں سے رواں پانی سنگ سنگ رواں ھےیہا ں ایک زیارت گاہ ہے۔ حضرت سراج الدین رحمتہ اللہ علیہ کی جس کے سبب پوری وادی خراج عقیدت پیش کرتی ہے یہاں سے لطافت اور عقیدت کو اپنے دامنوں میں سمیٹ کر اگلی منزل کے لئے پھر گاڑی تک پیدل آئےاور اگلی منزل اچھالی جھیل تھی سیاحوں کا رش نہ تھا ہم نے واپس مرکزی شاہراہ پر سفر کا آغاز کیا کچھ فطرتی مناظر کو آنکھ کے کیمرے سے قلب مضطرب پر منتقل کیا اور ہم اچھالی جھیل کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب گئے، سیاحت کا اتنا پر کشش مقام دیکھنے سے اب تک محروم رہنے کی وجہ گورنمنٹ کی عدم توجہ ہی ہو سکتی ہےیہ جھیل اپنے قرب وجوار میں سالٹ رینج کے باعث نمکین ہےجس کی وجہ سے پانی ساینسی اسطلاح میں بھاری ہے لیکن اپنے حسین مناظر کی وجہ سے دلکشی میں نظیر نہیں رکھتی یہاں کشتی رانی کی سہولت میسر ہے فیملی کے ساتھ یادگار لمحات گزارے جاسکتے ہیں۔ سکیسر کی بلند چوٹی کا عکس کیا بھلا دکھائی دیتا ہے وادی سون کی جھیلوں کی خوبصورتی اس وقت اور بھی دیدنی ہوتی ہے جب ہر سال موسمی شدت کے باعث لاکھوں کی تعداد میں وسطی ایشیا کے مہاجر پرندوں کا مسکن ہوتی ہیں خصوصی طور پرسفید سر والی بطخیں یہاں کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہیں یہاں وائلڈ لائف کی مختلف اقسام ماحول میں سیاح کو فطرت کا مزید قرب عطا کرتی ہیں نہ چاہتے ہوئے واپس لوٹے اور سکیسر کی راہ لی گھومتے بلدار راستوں کے راہی بنے اور سکیسر کی بلندی پر پہنچ کر حد نظر تک نمک کی چٹانوں اونچے نیچے پہاڑوں سر سبز میدانوں کا منظر پلک جھپکنے میں ہی دیکھا جاسکتا ہے سکیسر بیس پر آنے کے لئیے فوجی اجازت نامہ ضروری ہے یا یہاں کسی فوجی افسر سے تعلق کی بنا پر یہاں آیا جا سکتا ہے۔ سکیسر ہماری پاک فوج کا اہمیت سے بھرپور مقام ہے۔ سکیسر بیس نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہےاس جگہ اور یہاں کے محب وطن باسیوں نے فضائے اسمانی میں زاغوں اور شاہینوں کی جنگ نہ صرف دیکھی بلکہ لڑی ہے۔ ایم ایم عالم کا تاریخی لمحہ اور کارنامہ قوم کبھی نہ بھلا سکے گی جب آپ نے پلک جھپکتے ہی ریکارڈ وقت میں عقابی انداز میں جھپٹ کر دشمن کے چھے طیارے تباہ کیئے تھےاس ہی بیس سے کنٹرول و ہدایات جاری کی گئی تھیں یہ جگہ سٹریٹجک تاریخی دفاعی اعتبار کی حامل ہےاس ایئر بیس کے اندر ایک چھوٹا اور اہم میوزیم ہےجس میں اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں یعنی گردو نواح کی تعمیرات کےماڈل جنگی الات ریڈار کی تاریخ اور ماڈل ہیں۔ پاک فضائیہ کے پرچم سجائے گئے ہیں۔ بیس پر لگے شہدا وطن کے ناموں والے بورڈ شہدا کی قربانیوں کا اعتراف ہےیہاں ہیلی پیڈ بھی ہے جیسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ ائیر بیس پر آنے کے لئے سکیورٹی کی غرض سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے اس ائیر بیس میوزیم سے نیچے کی جانب سیاحوں کے لئے زپ لائن کا اہتمام بھی ہے نیچے کے مناظر انتہائی سہانے لگتے ہیں ائیر بیس پہ قدیمی مندر کی باقیات بھی ہیں موسم میں ٹھنڈک کا احساس مری سے مماثلت رکھتا ہے معظم بھائی نے اس وادی کے بقیہ مقامات بھی دکھانے کا وعدہ کرتے ہوئے واپس ریسٹ ہاؤس کا رخ کیا اب بھوک کا احساس بھی ہو رہا تھا دن بھر کی مٹر گشت ڈائری کی نظر کرتے کرتے سونے کی تیاری کی کل کا پروگرام ترتیب دینے کے بعد فطرت کے قدرتی مناظر کو دل ودماغ میں سمائے سو لئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں