روح اور انسانی حیات…! قسط نمبر 9 (میر افضل خان طوری)

انسان جب رات کی تاریکیوں میں اپنی شخصیت کو گم کر دیتا ہے تو وہ اس کے دامن میں چھپی ہوئی صبح کی نوید سننے کی طاقت کھو دیتا ہے۔ شعاع لوح خفی ندائے فطرت میں ہر جگہ جلوہ افروز ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ برق طور کی طرح منتظر دیدار نظر آتا ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایمان بالغیب کو مومنین کے خوبیوں میں سے قرار دیا ہے۔ بعض مفسرین نے غیب کو انسانی روح سے تشبیہ دی ہے۔ کیونکہ روح بھی ایک غیبی قوت نام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے کہ “روح تو میرے امر میں سے ہے”

در حقیقت روح انسانی عقل و ذہن کو کنٹرول کرنے والی ایسی قوت کانام ہے جس کا تعلق انسان کے ارادے سے ہوتا ہے۔ جب انسان کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اپنے جسمانی اعضاء کو بولتا نہیں بلکہ وہ خود بخود انسانی ارادے کی تعمیل میں متحرک ہو جاتے ہیں۔ وہ کون ہے جو عقل کرتا ہے؟ وہ کون ہے جو اپنے ذہن کو استعمال کرتا ہے؟ سوچتا کون ہے؟ اور غور و فکر کون کرتا ہے؟ یقینا انسانی روح ہی وہ غیبی قوت ہے جو انسان کے بصارت و سماعت اور لامسہ وغیرہ سے لئے گئے معلومات کو درک کرتا ہے اور انہی معلومات کو عقل و تفکر کی کسوٹی سے گذار کر فیصلے صادر کرتا ہے۔ ہم مسلسل قرآن مجید کی رو سے انسانی روح اور انسانی حیات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہم دنیا کے دیگر الہامی مذاہب کے رو سے بھی روح کا تذکرہ کر چکے ہیں جن کا آگے بھی مزید ذکر آئے گا۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ روح کا تعلق جب جسم سے قائم ہو جاتا ہے تو روح کی اس کیفیت یا حالت کو “نفس” کہا جاتا ہے۔

ہم نے قرآن مجید کے رو سے نفس کے دو حالتوں “نفس امارہ” اور “نفس لوامہ” کا ذکر کیا تھا۔ آج ہم روح کی تیسری کیفیت یعنی نفس ملہمہ کا ذکر کرینگے۔ نفس ملہمہ کا اندازہ آپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ قرآن مجید نے سورہ شمس میں 11 قسمیں کھانے پر روح کی اس کیفیت کا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں انسانی نفس کی واضح اہمیت بیان فرمائی ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ” قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے والے کی۔ پھر اس کی بدی اور پرہیز گاری اس پر الہام کردی۔ یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے اس نفس کو پاکیزہ کیا۔ جس نے اس کو آلودہ کیا وہ ناکام ہوا”

ان قرآنی آیات میں نفس کی اس حالت کو بیان کیا گیا ہے کہ جو “نفس لوامہ” کے بعد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ “نفس لوامہ” میں انسان برے کام پر نادم ہونے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ قرآن نے اس حالت کو تقوی کہا ہے۔ متقیں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی غیبی قوت کے بارے میں آگاہ ہوتے ہیں۔ اس پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ وہ برائیوں سے بچ کر چلتے ہیں۔

جب انسانی روح اتنی طاقتور ہو جاتی ہے کہ وہ برائیوں سے بچنا شروع کر دیتی ہے تو اس کے بعد اللہ تعالی اس کے دل پر “الہام” کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اب اس کو ہر قسم کی برائی اور اچھائی میں فرق کرنے اعلی صلاحیت مل جاتی ہے۔ یعنی اس کے دل کو یقین کی دولت مل جاتی ہے۔ اس حالت میں وہ ” تزکیہ نفس” کے ذریعے اپنی تقوی کو بڑھاتا ہے۔ وہ اپنے نفس کو آلودہ نہیں ہونے دیتا۔ نفس کے آلودہ ہونے کا مطلب کھلی گمراہی اور بربادی ہے۔ اسی کیفیت کو ہم ضمیر کی آواز بھی کہتے ہیں۔ انسان کا ضمیر جب جاگ جاتا ہے تو وہ برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی کہنے کی طاقت حاصل کرلیتا ہے۔

لہذا انسانیت کی منزل پر قائم رہنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی قدرت رکھتا ہو۔ اپنی خواہشات نفس پر قابو رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

جیسا کہ امام المتقین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ” شہوانی خواہشات کا غلام انسان کے غلام سے زیادہ ذلیل و پست ہوتا ہے” ( غرر الحکم)

ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان تزکیہ نفس کے ذریعے اپنی خواہشات نفس پر تسلط حاصل کرے تاکہ اس کا نفس الہام کے مقام کو پا سکے۔ امام المتقین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ” جو شخص اپنی نفسانی خواہشات پر غالب آگیا اس نے اپنی انسانی قدر و منزلت محفوظ لرلی” ( مستدرک ، جلد دوم ، صفحہ 287)

اسی طرح ویل ڈورینٹ کہتا ہے کہ ” خواہشات پر علم و معرفت کا تسلط عقل کا حقیقی جوہر اور ضبط نفس کی بنیاد ہے۔ شخصیت کی تعمیر کیلئے ضبط نفس اہم ترین ضرورت ہے”

انسانی روح کی الہامی کیفیت (نفس ملہمہ) بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تزکیہ نفس کے سبب انسان اپنی شخصیت کو بلندی اور کمال عطا کرسکتا ہے۔


نوٹ: آگے جاری ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں