وادی سون پارٹ 3 کنہٹی گارڈن اور کھبیکی جھیل…! (سید صفدر رضا)

صبح سویرے اٹھنا معمول سہی اللہ تعالیٰ کی کبریائی ہمارے بیان کرنے سے بڑھتی نہیں اور اگر نہ بیان کریں تو گھٹتی ہے اپنا ہی بھلا ہوتا ہے جب انسان اس قادر وقدیر کی شان بے نیازی اس کائینات کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی اس رب جلیل و کریم کی نشانیاں دیکھتا ہے اور سر بسجود ہو کراس کی نعمتوں میں سے دیکھنے کی صلاحیت کا شکر گزار ہونا لازم و ملزوم ہے پرندے فضائے آسمانی کو مزید دلکش و حسین بنارہے تھے بادل کی ٹکڑیاں نیلگوں آسمان کو سجا رہی تھیں معظم فیاض بھائی ابھی بستر سے جدا نہیں ہونا چاہ رہے تھے مگر ہماری لا ابالی طبعیت کو شاید معظم بھائی کا سکون برداشت نہیں ہو رہا تھااسی اثنا میں ہم نے کھلے آسمان کھلے ماحول میں چہل قدمی کرنا شروع کی تو وہاں مقامی سکول کے معلم سے ملاقات ہوئی موصوف محترم نے کافی سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے ہماری کافی حد تک رہنمائی فرمائی جس کے لئیے ہم استاد محترم کے شکر گزار و ممنون ہیں وادی کے بارے میں دلچسپ معلومات سے آگاہی فراہم کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ یہ وادی محل وقوع کے لحاظ سے ٹلا جوگیاں سے کالا باغ تک کمان کی صورت۔ پھیلے سطح مرتفع پوٹھوہار کے پہاڑی سلسلے اور کوہ نمک کے دامن میں واقع ہےیہ اس وادی کا صدر مقام ہے اپنی خوبصورتی اور قدیم ہونے اورحسن وجمال کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے یہاں کئی فطرتی مناظر سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں اس وادی کو تاریخی طور پر سکندر اعظم اور ظہیر الدین بابر سے منسوب ہونے کا شرف حاصل ہے کئی چھوٹے بڑے گاؤں پر مشتمل ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی۔ بڑے زمینداروں میں شامل نہیں چھوٹے چھوٹے خطے کے مالک ہیں ظہیر الدین بابر نے اپنے دور میں یہاں خوب شجر کاری کی اور کئی انواع و اقسام کے پودے لگوائے اور اس کے بقول یہ وادی اپنے حسن کے باعث کشمیر کا بچہ ہے یہ وجہ تھی کے بادشاہ نے یہاں کے مناظر و خوبصورتی کا مداح ہونے کی وجہ سے اس کو مزید حسین بنانے کی غرض سےباغات لگوائے یہ وادی اپنے مشرق کی جانب چکوال جہلم مغرب میں میانوالی جنوب میں نور پور تھل شمال تلہ گنگ کے علاقے رکھتی ہے اپنا ضلع خوشاب ہےاتنے میں ہمیں بستر پر نہ پا کر معظم صاحب آنکھیں ملتے ہوئے اور ہماری تلاش میں آتے ہی بولےجلدی سے ناشتہ کر لو پھر آگے چلنا ہے ہم نے نہ چاہتے ہوئے استاد محترم سے اجازت مانگی جنہوں نے ناشتے کی دعوت دی ہم نے معذرت کی مگر معظم بھائی نے استاد محترم کو اپنے ساتھ آنے پر منا ہی لیا ہم نے پرتکلف ناشتے کےبعد کھبیکی جھیل کا رخ کیا راستہ بہت اچھا تو نہیں بہت برا بھی نہیں تھا کہیں کھیت نظر آئے تو پہاڑ اپنی بلندی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے ہماری توجہ کا مرکز بن رہے تھے ایسے میں سکوت اور وادی کے سحر کو توڑتے ہوئے معظم بھائی نے استاد محترم سے پوچھا ساری وادی گھومنے کا بہترین وقت کون سا ہے استاد محترم فرماتے ہوئے گویا ہوئےمارچ تا اکتوبر موسم سیاحوں کے لئیے مناسب ہےجب سیاحت کا مزہ دوبالا ہوتا ہے جون جولائی میں کچھ حد تک ہلکی پھلکی دھوپ میں گرمی کا احساس ہوتا ہے لیکن سردیوں کا موسم شدید ہوتا ہے کبھی کبھار برفباری بھی ہو جاتی ہے یہاں چھ طرح کے موسم ہوتے ہیں گرمی سردی بہار خزاں برسات اور برفباری۔ مارچ تا ستمبر تک موسم خوش گوار ہوتا ہے برسات میں ہر سو سبزہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے پھولوں کی مہک چارسو پھیل جاتی ہے یہاں کی مٹی کی اپنی تاثیر ہے مٹی بھری ہے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر فصلوں کی مختلف اقسام موجود ہیں یہاں کی سبزی کا ملک میں بڑا حصہ ہے اور ذائیقہ میں لذیذ ہے اس کا انحصار زیادہ تر برسات پر ہے یہاں خوبصورت مناظر جھیلیں باغات خوشگوار موسم سے لوگوں کو مزید متعارف کروانے کی ضرورت ہے انہی معلومات کا خزانہ سمیٹتے ہوئے ہم کھبیکی جھیل پر پہنچ کردنگ رہ گئے کہ سیاحوں کی دلچسپی اور سہولیات کا خاطر خواہ اہتمام ہے PTDC کا رہنمائی بورڈ ہمیں بتاتا ہےکہ یہاں جھیل پر بوٹس سیاحوں کےلیے موجود ہیں آپ یہاں سائیکلنگ بھی کر سکتے ہیں مختلف جگہ پر سکون سے بیٹھ کر جھیل کا پہاڑوں کا نظارے کرنے کے لیئے بینچ رکھے گئے ہیں بچوں کے لئیے پلے ایریا بھی ہے اور ایک ٹاور بھی ہے جس پر چڑھ کر اطراف کا نظارہ دیدنی ہے یہاں کیمپنگ بھی کی جاتی ہے صفائی کا معیار بہتر ہے ادھر ادھرا اک دو منرل واٹر کی خالی بوتلیں اور چند ریپر و شاپر معظم صاحب نے اکٹھے کر کے ڈسٹ بن میں ڈال کر کہا صفائی نصف ایمان ہےاک جانب آلو کاشت کیئے گئے تھے اتنے حسین مناظر یکجا پہلے کبھی نہ دیکھے تھے جھیل کے کنارے دور تک بیٹھنے اور گھومنے کی جگہ مختص کی گئی ہےیہ بھی اک نمکین پانی کی جھیل ہے اور یہاں کئی اقسام کی مچھلیاں پالی گئی ہیں سائبیریا سے آئے پرندے اسے مزید دلکش بنادیتے ہیں معظم فیاض صاحب نے بھی ہماری معلومات میں اضافہ فرماتے ہوئے بتایا کہ کھبیکی جھیل کی لمبائی تقریباً 2 کلومیٹر سے زائد 1کلومیٹر چوڑی اور 20 فٹ کے قریب گہری ہےاس وادی میں خوب زرعی پیداوار ہوتی ہےمکئی مونگ پھلی مونگ ماش سبزیاں گوبھی کھیراٹماٹر بھنڈی بیگن کریلاکی خوب کاشت ہوتی ہے۔ گوبھی کی ترسیل ملک کے طول وعرض میں ہونے کے باعث کاشت کار خوشحال ہوجاتے ہیں پھلوں میں لوکاٹ، سیب، اڑو، بادام، کینو، انگور بھی خوب ہوتے ہیں ابھی آپ کنہٹی گارڈن کی سیر کے دوران اپکو ان پھلوں کے درخت بھی دیکھنے کو ملیں گے اب ہماری منزل کنہٹی گارڈن ہی ہےسفر پر رواں دواں خوبصورت مناظر دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھےدوپہر کاوقت ہو چکا تھا سورج کی تپش میں سردی کا احساس کم ہو رہا تھااسی اثنا میں ہم گھنے اور ڈرامائی اٹار سے مزین کنہٹی گارڈن میں تھے بس جی گارڈن کیا تھا سیاحوں کے لیئے مختلف سہولیات سے بھرپور تھا۔ معظم صاحب نے استاد محترم کو اپنی معلومات بتاتے ہوئے ایک لائق اور ذہین ترین طالب علم ہونے کے فخریہ انداز کا اظہار تھا کلاس مانیٹر کی طرح ہمیں متوجہ کرتے ہوئے فرمانے لگے شاہ جی یہ ہے قدیم اور تاریخی اہمیت کا کنہٹی گارڈن پائن سیب بادام کے درخت آپ خود ملاحظہ فرماسکتے ہیں استاد محترم بات آگے بڑھاتے ہوئے بولےسیاحوں کے بیٹھنے ان کی سہولت کی رہنمائی کیلئے بورڈاپ دیکھ ہی رہے ہیں ہمیں یہاں آبشار چشمے شفاف پانی دیکھنے کو بھی ملا ایک پوائنٹ ایسا بھی سامنے آیا جھاں سے گارڈن کا نظارہ کیا جاسکتا ہےیہاں کیمپنگ کی سہولت بھی میسر ہے معظم صاحب یکدم گویا ہوئے ہم تو ورطہ حیرت اور گارڈن کے پر کیف نظاروں میں مگن تھے یہاں سیاحوں کے لیئے ریسٹ ہاؤس پیدل چلنے کی راہداریاں اونٹ کی سواری کا اہتمام دیکھنے کو ملا ہم حیران تھے کہ ہم ان فطرتی مناظر کو دیکھنے سے اب تک محروم رہے مگر ہم انتہائی ممنون ہیں معظم صاحب کے کہ انہوں نے پنجاب کی اس تاریخی قدرتی اور فطرتی مناظر سے بھرپور وادی دیکھنے اور گھومنے کا موقع فراہم کیا معظم صاحب نے بتایا کہ اس وادی میں جاہلر جھیل امب شریف ٹیمپل ہے۔ یہاں چشمہ جھال منجھالی ہے سکھوں کے تعمیر شدہ دو اشنان گھاٹ ہیں دیگر بہت سے مقامات اکرند قلعہ مائی والی ڈھیری ہموار میدان وادی گوسر کے دیکھنے باقی ہیں پھر کبھی پروگرام بنا کر آپ کی تشنگی مٹانے کا سبب بنیں گے ہم ڈوبتے سورج کے شفق سے پہاڑوں کے اوٹھ سے الوداعی رخصت لے کر لاہور کارخ کرنے سے قبل استاد محترم کو نوشہرہ ڈراپ کرکے پھر آنے کا وعدہ کرکے الوداع ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں