موجودہ دور میں صلہ رحمی کی اہمیت…! (حاجی محمد لطیف کھوکھر)

اسلام میں صلہ رحمی کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ صلہ رحمی دو لفظوں صلہ اور رحم سے مرکب ہے۔ صلہ کے معنیٰ جوڑنے کے ہیں، لیکن جب اس کے ساتھ رحم کا استعمال ہوگا تو اس کے معنیٰ بدل جائیں گے۔ مجازاً اسے رشتے داری کے معنٰی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے مشتق ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا۔ ‘میں ہی اللہ ہوں اور میں ہی رحمن ہوں میں نے رحم رشتے داری کو پیدا کیا، میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، جو اس کو جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس سے قطع تعلق کرے گا، میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔” لغوی اعتبار سے رحم کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی شفقت کے ہوتے ہیں اور جب اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنیٰ رحمت کے ہوتے ہیں۔

قرآن کریم کی آیات اسلام میں رشتے داری کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں، رشتے داری کا احترام کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر زور اور انہیں پامال کرنے سے روکا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے: ” اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ رشتے داری اور قرابت کے، تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو”۔ قرآن کریم میں قطع رحمی کا تذکرہ فساد فی الارض کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کا باہم گہرا تعلق ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں۔ مگر جب قطعی حکم دیا گیا، اس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچّے نکلتے تو انہی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے مْنہ پھرگئے تو زمین میں فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے۔

سورة رعد میں ارشاد باری ہے ۔”اور جو لوگ اللہ کے عہد کو باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور اس چیز کو کاٹنے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے اور ان کے لیے بْرا انجام ہے”۔ قرآن میں کفار کی فساد انگیزیوں کو مختلف پہلو سے اجاگر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک پہلو قطع رحمی بھی ہے۔ ارشاد پاک ہے۔”جو اللہ تعالیٰ کے عہد کو اس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو کاٹتے ہیں اور رئے زمین میں فساد مچاتے ہیں یہی لوگ نامراد ہیں”۔ جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد رشتہ اور قرابت ہے اور جس چیز کو اہل کفر و مناد کے اوصاف میں توڑنے کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد رشتے داری کے تعلقات ختم کرنا اور نبیۖ اور مومنین سے الفت و محبت کو ختم کرنا اور ان سے تعلق توڑنا مراد ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل میں جن چیزوں کا حکم دیاہے ان میں عدل اور احسان کے بعد تیسری چیز اہل قرابت کے حقوق کی ادائی ہے۔ ” اللہ تعالیٰ انصاف اور حسن سلوک اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے ”۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلہ رحمی پر عمل پیرا تھے۔ اس کا ثبوت ام المومنین حضرت خدیجہ کی گواہی ہے کہ جب غارِ حرا میں جبریل علیہ اسلام نے آکر پہلی وحی آپ ۖکوسنائی اور نبوت کا، بار آپۖ پر ڈالا تو اس کی وجہ سے آپ پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ وہاں سے آپۖ سیدھے گھر تشریف لائے، پورا واقعہ حضرت خدیجہ کو سنایا اور فرمایا مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ اس وقت حضرت خدیجة الکبریٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔ ہرگز نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتائو کرتے ہیں، بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ صلہ رحمی، شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ جس کے ساتھ یہ دین روز اوّل ہی سے دنیاوالوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہرقل کے ساتھ ابوسفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے، جس میں ہے کہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا: ”تمھارے نبی تمہیں کن چیزوں کاحکم دیتے ہیں ؟”، اس کا جواب یہ تھا وہ ہمیں نماز، زکوٰة، صلہ رحمی رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں”اس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صلہ رحمی دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے۔

سیدنا ابو ایوب انصاری سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ” اے اللہ کے رسول ۖ ! مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہو جائوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ”اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، نماز قائم کرو، زکوٰة دو اور رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔” اس سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کا شمار بھی ان اعمال میں ہے جو انسان کو جنت کا مستحق بناتے ہیں۔ قطع رحمی پر وعید حضرت جبیر بن نطعم سے مروی ہے انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔ ”جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا”۔صلہ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کا تعلق مضبوط ہوتا ہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے۔ صلہ رحمی کے درجات ایک متقی اور باشعورمسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلہ رحمی کرتاہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیاہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔ چنانچہ پہلا درجہ والدین کا قرار دیا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو مستقل طورپر بیان کیاگیاہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے ۔”اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھا ہے بجز اس ایک رب کے اور کسی کی پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا”” اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیاہے”۔

سورة لقمان میں ارشاد باری ہے۔”ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور دوبرس میں اسکا دودھ چھڑانا ہوا کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔”اس آیت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکرگزاری اور خدمت کا تعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے۔ لیکن قربانیاں اور جانفشانیاں، حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنائی گئی ہے۔ باپ کی کسی قربانی کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کا حق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا ‘اے اللہ کے رسول میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟’ آپ ۖنے فرمایا: تمہاری ماں ” اس نے پھر پوچھا۔ ‘اس کے بعد کون ہے؟’ آپ ۖنے جواب دیا: ‘تمہاری ماں’ اس نے دریافت کیا: ‘پھر کون؟’ آپ ۖ نے فرمایا: ‘تمہارا باپ’ اور دوسری روایت میں باپ کے بعد قریبی رشتے دار کا بھی تذکرہ ہے۔ حدیث میں ماں کا تذکرہ تین بار کیا گیا ہے۔ پھر باپ کا۔ اس سے ماں کا حق زیادہ ثابت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں