یکم مئی۔۔۔ یوم مزدور اور مزدور (ساجد خان)

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کا دن منایا جا رہا ہے۔اکثریت نے آج سکون سے بیدار ہونا ہے اور اس کے بعد گھر میں کئی دنوں سے رکے کام کاج میں مصروف ہو جانا ہے کیونکہ ایسے کاموں کے لئے چھٹی کا دن ہی مقرر کیا جاتا ہے۔

آپ اٹھیں گے اور کسی مزدور کی تلاش میں نکل پڑیں گے، تقریباً ہر شہر میں مزدوروں کا ایک علاقہ مخصوص ہوتا ہے جہاں علاقے بھر کے مزدور بیلچہ،گینتی اٹھا کر صبح سویرے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں اور اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب کوئی دیہاڑی ملے۔ آج بھی بہت سے مزدور ان مقامات پر مزدوری کی تلاش میں بیٹھے نظر آئیں گے،آپ ان سب سے ایک سوال کر کے مختصر سا سروے کر لیں کہ آج کے دن کی تمہاری زندگی میں کیا اہمیت ہے اور آج تم کیوں کام کر رہے ہو۔
شاید ایک فیصد ہی جانتے ہوں گے کہ آج کے دن ایسا کیا واقعہ پیش آیا کہ جس کی وجہ سے پوری دنیا آرام سے گھروں میں سو رہی ہے۔

اس دن کی مناسبت سے بتاتا چلوں کہ انیسویں صدی تک دنیا بھر میں مزدوروں کے ساتھ انتہائی ناروا رویہ رکھا جاتا تھا۔
کم اجرت کے ساتھ بارہ سے سولہ گھنٹے کام اور وہ بھی ان حالات میں کہ اس طبقے کی حفاظت کے لئے کوئی اقدامات نہیں کۓ جاتے تھے۔ مزدور یونینز اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی رہیں مگر بے سود رہا،جس پر مزدور یونین نے امریکہ کے شکاگو شہر میں یکم مئی 1886 کو ہڑتال کا اعلان کر دیا،تین مئ کو مزدوروں اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں آٹھ مزدور ہلاک ہو جاتے ہیں،جس پر حالات بگڑ جاتے ہیں،مذاکرات ہوتے ہیں اور مزدوروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے سوچ بچار کی جاتی ہے،جس کے بعد دنیا میں مزدور کے حقوق اجاگر ہوئے اور قانون بنایا گیا کہ ایک مزدور چوبیس گھنٹوں میں صرف اٹھ گھنٹے کام کرے گا،جس کی اسے اچھی اجرت دی جائے گی اور اس کے کام کی جگہ پر مکمل حفاظتی انتظامات کئے جائیں گے،یوں ڈیڑھ صدی قبل چند مزدوروں نے جان کی قربانی دے کر لاکھوں انسانوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کر دیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ان قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور اگر مزدور سمجھتا ہے کہ اس کے کام کا ماحول اس کے لئے سازگار نہیں ہے تو وہ کام کرنے سے انکار کے ساتھ ساتھ متعلقہ محکمہ کو شکایت بھی درج کروا سکتا ہے،جس پر سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں مزدور کی مزدوری بہت سے دوسرے شعبوں سے زیادہ ہوتی ہے اور آپ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ مغرب میں بہت سے لوگ اچھی کمائی کی وجہ سے مزدوری کرنے کو ترجیج دیتے ہیں۔
یہ سب تو یوم مزدور کی داستان ہو گئی مگر پاکستان میں مزدور کی زندگی قدرے مختلف ہے۔

بڑی تعمیراتی کمپنیوں اور چند انڈسٹریز کے علاوہ کہیں بھی مزدور کے لئے حفاظتی انتظامات دیکھنے میں نہیں آتے اور نا ہی مزدور کو اپنے حقوق کا علم ہے۔ یہاں مغرب کی نسبت مزدور کو سب سے کم اجرت دی جاتی ہے۔حیرت کا مقام ہے کہ پاکستان میں یوم مزدور کے موقع پر سب کو چھٹی ہوتی ہے سوائے مزدور کے،جس کی وجہ سے چھٹی کا اعلان کیا گیا۔

اس دن مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے،جس کے شرکاء بڑی بڑی ٹھنڈی گاڑیوں میں تشریف لاتے ہیں اور اے سی ہال میں بیٹھ کر مزدوروں کے حقوق پر لمبی لمبی تقریریں سنتے ہیں جہاں زندگی کے سب شعبوں کی نمائندگی ہوتی ہے سوائے مزدور کے۔ ان مقررین کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اس وقت گرمی کی تپش کس نہج پر ہے اور اس سخت گرمی میں وزن اٹھانا یا کڑکتی دھوپ میں مزدوری کرنا کتنا مشکل ہے۔

ہم اگر مزدور سے پوچھیں کہ بھائی آپ کے حقوق کی بات ہو رہی ہے اور آپ خود ہی شریک نہیں ہیں تو وہ شاید یہی جواب دے گا کہ ان بڑے بڑے ہوٹلوں میں منعقدہ تقریبات میں ہمیں داخل ہونے ہی کون دیتا ہے اور ہم اگر ان تقریبات میں شرکت کرنے لگ جائیں تو ہمارے بچے آج روٹی کہاں سے کھائیں گے۔ بات تلخ ہے مگر سچی ہے کہ یوم مزدور منانے والوں کی اس دن چھٹی منانے پر تنخواہ نہیں کٹتی مگر مزدور کو چھٹی کرنے پر دیہاڑی نہیں ملتی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام نے جتنے مزدور کے حقوق اجاگر کۓ ہیں،ہم اتنے ہی اس معاملے میں لاپرواہی برتتے ہیں۔
پچاس ہزار روپے کا موبائل فون خرید لیں گے،پانچ ہزار کے جوتے پہن لیں گے لیکن اگر مزدور کہے کہ یہ کام زیادہ ہے،میں سو دو سو روپے زیادہ مزدوری لوں گا تو فوراً ہمارے تیور بدل جاتے ہیں گویا دنیا کا ظالم ترین شخص یہی ہی ہے۔ ہمیں دین سکھاتا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو مگر ہم پانچ سو روپے کی خاطر مزدور کو دس چکر لگواتے ہیں۔

ہمیں گھر بیٹھے گرمی محسوس ہوتی ہے لیکن اگر مزدور سخت گرمی میں کام کرنے کے دوران کچھ دیر کے لئے ساۓ میں آ کر بیٹھ جائے تو ہمیں برا لگنے لگ جاتا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم مزدور کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے،شاید اس لئے کہ وہ کمزور ترین طبقہ ہے۔ ایک پنجابی اسٹیج ڈرامہ کا ڈائیلاگ تھا کہ کمزور پر تو مجھے ویسے ہی بہت غصہ آتا ہے۔ ہنسی مذاق میں کہی گئی یہ بات دراصل ہمارے معاشرے کا سیاہ ترین چہرہ ہے جسے ہم چھپا نہیں سکتے۔

مزدور کے فضائل سب بتانا پسند کرتے ہیں مگر مزدور بننا کوئی بھی پسند نہیں کرتا خواہ وہ آپ ہوں یا میں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں