طالبان کی صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو دھمکیاں

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغان طالبان نے میڈیا کو ایک ہفتے میں پروپیگنڈا بند کرنے کی ڈیڈلائن دے دی. امریکی میڈیا کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ جو افغان میڈیا گروپ ہمارے خلاف پراپیگنڈا بند نہیں کریں گے وہ اس کے صحافیوں کو اپنا ہدف تصور کرتے ہوئے نشانہ بنائیں گے۔

طالبان نے افغانستان کے ریڈیو اور ٹیلی وژن سٹیشنز کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے مسلح گروہ کے خلاف دیے جانے والے اشتہار نشر کرنا بند کر دیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق طالبان نے کہا ہے کہ جو بھی میڈیا گروپ ان کے خلاف پراپیگنڈہ نشر کرنا بند نہیں کرتا، طالبان اسے غیر جانبدار خبر رساں ادارہ نہیں سمجھیں گے اور وہ اسے اور اس کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کو اپنا فوجی ہدف تصور کرتے ہوئے نشانہ بنائیں گے.

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ افغان ذرائع ابلاغ نے اس ہدایت کو نظرانداز کیا تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے دیے جانے والے اشتہار میں شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ اگر وہ طالبان کی جانب سے کوئی مشکوک سرگرمی دیکھیں تو حکام کو اس کی اطلاع دیں۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ جو ادارے ایسی نشریات جاری رکھیں گے، جو مغرب کی حمایت یافتہ افغان حکومت کی مدد کررہے ہیں انہیں حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دفتر کی جانب سے طالبان کی دھمکی کی مذمت کی جنہوں نے ماضی میں بھی میڈیا کے رپوررٹرز اور ملازمین کو نشانہ بنایا تھا۔

اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘ آزادی اظہار اور میڈیا اداروں پر حملے انسانی اور اسلامی اقدار کی خلاف ورزی ہے’۔

خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے دھمکی ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سیاسی حل ڈھونڈنے کے مقصد کے تحت امریکی حکام اور طالبان رہنما ساتویں مرحلے کی تیاری کررہے ہیں۔

افغانستان میں امریکی سفیر جون باس نے کہا کہ طالبان کو افغان صحافیوں کو دھمکانا چھوڑ دینا چاہیے۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ ‘ صحافیوں یا شہریوں کے خلاف مزید تشدد سے افغانستان میں سیکیورٹی یا مواقع نہیں آئیں گے نہ ہی اس سے طالبان کو اپنے سیاسی مقاصد تک پہنچنے میں مدد ملے گی’۔

میڈیا واچ ڈاگ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس( سی پی جے) کے مطابق 2018 میں افغانستان صحافیوں کے لیے بدترین ملک تھا جہاں 13 صحافی قتل ہوئے تھے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس افغانستان میں 16 صحافی قتل ہوئے۔

2014 سے افغانستان میں بین الاقوامی میڈیا کی موجودگی میں تیزی سے کمی آئی جس خلا کو مقامی میڈیا نے پُر کرنے کی کوشش کی تاہم ان کا کام مشکل ہوتا جارہا ہے۔

2016 میں طالبان کے خودکش بمبار نے افغانستان کے سب سے بڑے نجی چینل طلوع ٹی وی کے ملازمین کو لے جانے والی بس سے گاڑی ٹکرائی تھی جس کے نتیجے میں 7 صحافی شہید ہو گئے تھے۔

اس حوالے سے طالبان نے کہا تھا کہ انہوں نے ملازمین کو قتل کیا کیونکہ طلوع ٹی وی پروپیگنڈہ کی ذریعے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان پر قبضے اور طالبان کے خلاف ان کی جنگ کی حمایت کررہا تھا۔

افغان میڈیا گروپ نے مسلح طالبان کی اس دھمکی کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق اور آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میڈیا گروپوں اور ان کے سٹاف کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

ماضی میں بھی طالبان افغان میڈیا گروپوں کے خلاف حملے کر چکے ہیں جن میں میڈیا اداروں کو جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ان کے خودکش حملوں کی زد میں آ کر درجنوں صحافی شہید ہو چکے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں