لیاقت علی خان کا آج 68 واں یومِ شہادت منایا جارہا ہے

اسلام آباد (ڈیلی اردو) آج پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور تحریکِ قیامِ پاکستان کے دوران مسلمانانِ ہندوستان کے رہبرِ فرزانہ اور بطلِ جلیل حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دستِ راست خان ڈاکٹر لیاقت علی خان کا 68واں یومِ شہادت منایا جا رہا ہے، انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسہ عام میں سید اکبر ببرک نامی افغان شخص نے جو سٹیج سے تھوڑی دور عوام میں بیٹھا ہوا تھا گولی مار کر شہید کر دیا۔ گولی چلنے کے فوری بعد راولپنڈی کے ایس پی نجف خان نے چیخ کر کہا کہ “مار دو”۔ ایس پی کے حکم پر انسپکٹر شاہ محمد نے قاتل کو ایک ہی وقت میں پانچ گولیاں مار دیں۔ حیران کن طور پر اس جلسہ میں سرحد کے وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس تو موجود تھے لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ، آئی جی پولیس قربان علی اور ڈی آئی جی سی آئی ڈی انور علی موجود نہیں تھے۔ زخمی وزیراعظم لیاقت علی خان آخری ہچکیاں لے رہے تھے۔ اس دوران حفاظتی محافظوں کو ہوائی فائرنگ کے احکامات سے بھگدڑ مچ گئی، جلسہ گاہ میں ایمبولینس تک موجود نہ تھی۔ وزیراعظم پر حملہ کے بعد گورنر پنجاب مشتاق گورمانی جلسہ گاہ پہنچے اور زخمی وزیراعظم کو ہسپتال چھوڑ کر گھر واپس چلے گئے اور اگلے روز تدفین میں بھی شریک نہ ہوئے۔ بعد ازاں انکوائری کمیشن نے ایس پی نجف خان کو کوتاہی کا ذمہ دار تو قرار دیا لیکن انہیں عہدے پر بحال کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پانچ سال کے اندر اندر ہی پاکستان اپنے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے بھی محروم ہو گیا۔ جناب قائداعظم ہی پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے چنانچہ ان کی وفات حسرت آیات کے بعد خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہو جانے کی سعادت حاصل ہوئی مگر جب لیاقت علی خان شہید کر دئیے گئے تو ماہرِ مالیات ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دینے کے لئے خواجہ ناظم الدین اپنی خواہش کے مطابق وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئے، سید اکبر ببرک کو اس جلسے میں ایک پولیس افسر ایس پی نجف خان کے حکم پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور لیاقت علی خان کی شہادت کے ملزمان کی تلاش کے لئے تحقیقات کا آغاز ہوا جو آج تک اپنے انجام کو نہیں پہنچا اور وہ معلوم نہیں ہو سکا کہ لیاقت علی خاں کو واقعی کس نے اور کیوں قتل کیا اور اس سانحہ کے پیچھے کس پاکستان دشمن کا ہاتھ تھا، پوری ملتِ پاکستان لیاقت علی خاں سے محروم ہو جانے پر غم و اندوہ کا پیکر بن گئی اور تحریکِ قیامِ پاکستان کے اس عظیم راہنما کی یاد میں راولپنڈی کے اس کمپنی باغ کو جس میں لیاقت علی خاں نے جامِ شہادت نوش کیا، پاکستان کے پہلے وزیراعظم سے معنون کرتے ہوئے ’’لیاقت باغ‘‘ کے اسم سے موسوم کر دیا گیا، لیاقت علی خان ملتِ پاکستان کے نہایت محبوب راہنما تھے اور اپنی اعلیٰ تعلیم اور جناب قائداعظم کے سیاسی مکتب سے تربیت حاصل کر لینے کے بعد جب پاکستان کے وزیراعظم مقرر ہوئے تو انہوں نے بہر اعتبار اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا۔ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال کے ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی اراضی پنجاب کے علاوہ یونائیٹڈ پروونسز (یو پی) میں بھی تھی مگر پاکستان میں وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی ان کی اقتصادی حالت کی حقیقت لوگوں کو اس وقت معلوم ہوئی جب شہادت کے وقت ان کی جُراب ایڑی کی طرف سے پھٹی ہوئی نکلی، وہ قائداعظم کے مسلم لیگ میں شامل ہو جانے کے دس سال بعد 1923ء میں مسلم لیگ میں آئے اور ابتدا ہی سے جناب قائداعظم کے معتقد ہو گئے، 1930ء سے 1940ء تک کی دہائی کے ابتدائی چند سال جناب قائداعظم نے اپنے اس عظیم پروگرام کے تحت لندن میں قیام کیا کہ وہ انگلینڈ کی پارلیمنٹ کے اراکین کو ہندوستان کے مسلمانوں کی حقیقی قوت اور ان کے حقوق کے اتلاف اور مسلمانوں کے بارے میں ہندوؤں کے منفی رویے سے آگاہ کر پاتے تو ایک موقع پر لیاقت علی خاں لندن پہنچے اور انہوں نے جناب قائداعظم کو واپس ہندوستان پہنچ کر مسلم لیگ کو منظم کرنے پر آمادہ کیا، مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال پہلے ہی اس محاذ پر کام کر رہے تھے چنانچہ قائداعظم ہندوستان واپس تشریف لائے اور انہوں نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کے باب میں 12 اپریل 1936ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا جو اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا اس میں جناب قائداعظم نے لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کے اعزازی جنرل سیکرٹری مامور کر دینے کی قرارداد پیش کی جسے بڑے جوش و خروش سے منظور کر لیا گیا، واقعہ وہ ہے کہ اگر جناب قائداعظم کے بعد ان جیسی عظیم ہستی کا نعم البدل پاکستان کے مقدر میں نہیں ہو سکا تو لیاقت علی خاں کے بعد ان جیسا وزیراعظم بھی پاکستان کو نہیں مل سکا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں