کراچی: ٹرک ڈرائیوروں کے قتل کا مقدمہ ایف ڈبلیو او کے اہلکارروں کیخلاف درج، وزیراعلیٰ سندھ کا تحقیقات کا حکم

کراچی (ڈیلی اردو) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ٹرک ڈرائیوروں اور پاکستانی فوج کے زیر انتظام تعمیراتی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے درمیان فائرنگ کے واقعے پر کراچی کے ایڈیشنل آئی جی کو اس واقعے کی فوری ایف آئی آر درج کرنے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے کی ہدایات کر دیں

جس پر سندھ پولیس نے فوری طور پر مقدمہ درج کر کے تحقیقت کا آغاز کر دیا۔ سندھ پولیس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق صوبہ کے انسپکٹر جنرل سید کلیم امام نے واقعہ کی تفتیش کا حکم دے دیا  ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جو بھی واقعہ میں ملوث نکلا اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہوگی تاہم ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے کراچی پولیس ضلع مشرقی کے ڈی آئی جی عامر فاروقی نے بتایا کہ ایف ڈبلیو او اور ٹرک ڈرائیوروں کے درمیان ٹرکوں پر سامان لادنے یعنی لوڈنگ کے حوالے سے تنازعہ چل رہا تھا۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ایف ڈبلیو او کے اہلکار اعلیٰ عدالت کی جانب سے ٹرکوں کے لوڈنگ کے وزن کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

ڈی آئی جی عامر فاروقی کے مطابق ٹرک ڈرائیوروں نے طیش میں آ کر ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔

پولیس کے مطابق ایف ڈبلیو او کے حکام نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی مگر ایسا ممکن نہ ہوا تو اس کے بعد انھوں نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔

تاہم فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق ہوگئے جن کی لاشوں کو ہسپتال پہنچا دیا گیا جبکہ چند افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔

جاں بحق ہونے والوں کی شناخت سعید ایوب، نیاز علی اور رسول خان کی حیثیت سے ہوئی ہے۔

واقعہ میں جاں بحق ہونے والے ٹرک ڈرائیور سعید ایوب کے بھائی علی زمان خود بھی ٹرک ڈرائیور ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزن کے تنازعے پر گذشتہ چار روز سے ایف ڈبلیو او اور موٹروے پولیس نے سامان سے لدے ٹرک اور بڑے ٹرالرز کو روک رکھا تھا جن پر پورے ملک کا مال لوڈ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرکوں اور بڑے ٹرالرز کی طویل لائن لگنے کے سبب صورتحال سے نمٹنے کے لیے ڈرائیوروں نے ایف ڈبلیو او اور موٹروے پولیس سے مطالبہ کیا کہ جب ٹرکوں پر اتنا سامان لوڈ ہے تو ان کو جانے کی اجازت دی جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔

علی زمان کے مطابق اجازت نہ ملنے پر ٹرک اور ٹرالر ڈرائیور احتجاجاً ایک ساتھ اپنی گاڑیاں لے کر موٹر وے کی جانب بڑھنا شروع ہوئے جس پر ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے براہ راست فائرنگ شروع کردی۔

انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف براہ راست فائرنگ کی بلکہ ایک ڈرائیور جو فائرنگ سے بچنے کے لیے ٹرک کے نیچے چھپ گیا تھا، اُس کو تاک کر نشانہ بنایا جس سے وہ موقع ہی پر جاں بحق ہو گیا۔

علی زمان کے مطابق ڈرائیوروں کو یہ توقع نہیں تھی کہ ایف ڈبلیو او لوگوں پر براہ راست فائرنگ کرے گی۔

’ہمارا خیال تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ اگر گرفتار بھی کر لیا جاتا تو ہم مالکان اور جن لوگوں کا مال تھا، ان کو کہہ سکتے تھے کہ پولیس ہمیں جانے نہیں دے رہی ہے۔ اس بات کا تو ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ براہ راست فائرنگ کردیں گے۔’

واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ معاملہ زیر بحث بن گیا اور پاکستان کے ٹاپ ٹرینڈز میں سے فریقین کی جانب سے شروع کیے گئے ٹرینڈ سرفہرست آگئے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے میں جو کوئی بھی ملوث ہو، قانون کی گرفت سے بچنا نہیں چاہیئے۔

شمالی وزیرستان سے قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے رکن محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں تینوں افراد کا تعلق ان کے حلقے سے ہے۔ انھوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ ذمہ داران کو سزا دی جائے۔

دوسری جانب رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے الزام لگایا ہے کہ احتجاج پر فائرنگ ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں