ؐیوکرائن میں داعش کا نائب ’وزیر جنگ‘ گرفتار

کییف (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے پی) یوکرائن کی سکیورٹی سروس کے مطابق ایک مشترکہ بین الاقوامی آپریشن کے دوران دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے ایک اعلیٰ کمانڈر کو گرفتار کر لیا گیا۔ البرا شیشانی نامی یہ شدت پسند داعش کا نائب ’وزیر جنگ‘ رہ چکا ہے۔

یوکرائنی سکیورٹی سروس ایس بی یو نے بتایا کہ اس نے جارجیا کے شہری ایک ایسے عسکریت پسند کو گرفتار کر لیا ہے، جس کا نام البرا شیشانی ہے اور جس کے ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک سرکردہ کمانڈر ہونے کی تصدیق ایک تصویر سے ہوئی تھی۔ شیشانی کو یوکرائن کے دارالحکومت کییف کے نواحی علاقے میں ایک ایسے نجی مکان سے حراست میں لیا گیا، جہاں وہ رہتا تھا۔

یوکرائنی سکیورٹی سروس کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ایک تصویر کی مدد سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ زیر حراست غیر ملکی دراصل داعش کا ایک مطلوب کمانڈر ہے۔

ساتھ ہی ایس بی یو نے یہ بھی بتایا کہ اس عسکریت پسند کو ایک ایسے مشترکہ بین الاقوامی آپریشن کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا، جس میں ایس بی یو کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے علاوہ جارجیا کی وزارت داخلہ کا تعاون بھی حاصل تھا۔

شیشانی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کا پیدائشی نام سیزار توخوساشویلی تھا اور وہ 2015ء میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کا رکن بنا تھا۔ اس کے بعد وہ ابو عمر الشیشانی کا نائب بھی رہا تھا، جو امریکی محکمہ دفاع کے مطابق داعش کا ‘وزیر جنگ‘ تھا اور 2016ء میں ایک بڑی مسلح جھڑپ میں مارا گیا تھا۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق البرا شیشانی اور ابو عمر الشیشانی دونوں کا تعلق پیدائشی طور پر جارجیا میں پانکیسی کے پہاڑی علاقے سے تھا، جہاں زیادہ تر چیچن نسل کے وہ باشندے رہتے ہیں، جنہیں کِسٹس کہا جاتا ہے۔ ان دونوں افراد کے نام شیشانی اس لیے تھے کہ وہ نسلی طور پر چیچن تھے اور چیچنیہ کو عربی زبان میں شیشان کہا جاتا ہے۔

یوکرائن کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں کے بقول ابو عمر الشیشانی کی موت کے بعد البرا شیشانی شامی سرحد عبور کر کے ترکی چلا گیا تھا، جہاں سے وہ ایک جعلی پاسپورٹ پر گزشتہ برس یوکرائن پہنچا تھا۔ یوکرائن میں کییف کے ایک نواحی علاقے میں رہتے ہوئے بھی وہ داعش کی سرگرمیوں کے لیے رابطہ کاری کرتا تھا۔

یوکرائنی سکیورٹی سروس نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ مطلوب غیر ملکی دہشت گرد اس وقت قانونی طور پر ملک بدر کیے جانے سے قبل ملکی حکام کی حراست میں ہے اور اس امر کی چھان بین بھی جاری ہے کہ وہ یوکرائن کی سرزمین پر کب کب اور کس طرح کے جرائم کا مرتکب ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں