بلوچستان: کالعدم تنظیم “براس” کا مغوی لیویز اہلکاروں کے بدلے بلوچ خواتین کو رہا کرنے کا مطالبہ

کوئٹہ (ڈیلی اردو) ذرائع کے مطابق بلوچستان کے دور دراز ضلع بولان کو ضلع کچھی بھی کہا جاتا ہے (کچھی) کی تحصیل سنی شوران میں نامعلوم مسلح افراد نے چار لیویز اہلکاروں کو اغوا کر لیا ہے جو وہاں سڑک کی تعمیر کے کام کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ کالعدم تنظیم یونائٹڈ بلوچ آرمی نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں لیویز اہلکاروں پر حملہ ہوتے اور اغوا ہوتے دکھایا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ویڈیو میں آگے جاکر قطار میں کھڑے یہ لیویز فورس کے اہلکار بلوچی زبان میں باری باری اپنا تعارف کراتے سنے جا سکتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مغویوں میں سفرخان ولد محمد یوسف، محمد امین ولد محمد حسن، نعمان گل ولد مشتاق احمد اور حسین بخش ولد موسیٰ خان شامل ہیں۔

تنظیم براس نے ایک بیان میں حال ہی میں ضلع آواران سے سکیورٹی اداروں کی طرف سے حراست میں لی جانے والی چار بلوچ خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

حکام کے مطابق ان چار بلوچ خواتین کو 29 نومبر کو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں کیا گیا۔ لیویز فورس کی جانب سے جاری کی گئی ایک تصویر میں گرفتار خواتین کے ساتھ اسلحہ بھی دکھایا گیا تھا۔

صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے ایک بیان میں کہا کہ ان خواتین کو چھان بین کے بعد اٹھایا گیا۔ ان کے بقول گرفتار خواتین کو قانونی کارروائی کے لیے دہشت گردی کی مقامی عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔

بلوچستان میں چار کالعدم تنظیموں کے اتحاد (براس) نے سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے رد عمل میں اپنی مسلح کارروائیاں تیز کرنے کی دھمکی دی ہے۔

بلوچ راجی آجوئی سنگر یا “براس” میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن گارڈز اور بلوچ ریبلکن آرمی شامل ہیں۔ براس نے رواں سال مئی میں ساحلی شہر گوادر میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری لی تھی۔ اس حملے میں براس کے تین حملہ آور مارے گئے تھے جبکہ حملہ میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 5 افراد شہید ہوئے تھے۔

ادھر بلوچ خواتین کی گرفتاری پر پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بھی سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں پارٹی اراکین نے قومی اسمبلی کےحالیہ اجلاس کے دوران سخت احتجاج کیا۔ ہفتے کو کوئٹہ پریس کلب کے باہر بی این پی کے مظاہرے میں بلوچ خواتین کی گرفتاری کی مذمت کی گئی اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

مظاہرے میں شامل بی این پی کے رہنما ملک عبدالولی خان نے کہا، “یہ ایک بہت خطرناک صورتحال بن چکی ہے۔ اب بلوچ مردوں کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین کو بھی بلاوجہ گرفتار کر کے صوبے میں چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا جار رہا ہے ۔

”انہوں نے مزید کہا، “ہم نے ہمیشہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی بات کی ہے۔ یہاں کے وسائل پر سب سے زیادہ حق صوبے کے عوام کا ہے ۔ریاستی ادارے غیرآئینی اقدامات کے زریعے صوبے کے وسائل پراختیار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم حکومت کے اتحادی ضرور ہیں لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہم اپنے حقوق پرخاموش رہیں گے۔

”سیکیورٹی امور کے ماہر میجر (ر) عمر فاروق کے بقول، خواتین کی گرفتاری سے صوبے میں قیام امن کی صورتحال متاثر ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ ناراض بلوچ رہنماوں کا اعتماد حاصل کیے بغیر حکومت بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا، ” میرے خیال میں بلوچ قومی جدوجہد پر حکمران زمینی حقائق پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ بدامنی کی وجہ سے تمام معاملات متاثر ہو رہے ہیں۔ بی این پی جیسی جماعت جو پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتی ہے اسے بھی اگر دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو یقینا اس کے حوصلہ افزا نتائج نہیں نکلیں گے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں