جسٹس فائز عیسٰی کیس: عدلیہ کو انتظامیہ کے شکنجے سے محفوظ رکھنا ہوگا، رضا ربانی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/آن لائن) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل میاں رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 209 کی شق 5 اور 6 کے مطابق کسی جج کیخلاف انکوائری صرف سپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے صدر پاکستان، وزیر قانون سمیت کوئی بھی شخص کسی ادارے کو جج کیخلاف انکوائری کا حکم نہیں دے سکتا، مجوزہ معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف اثاثے ظاہر نہ کرنے پر مختلف اداروں کو انکوائری کا حکم دیاگیا ہے۔

ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین نے وزیر قانون سے مشاورت کے بعد وزیر قانون اور معاون خصوصی برائے احتساب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف تحقیقات کا حکم دیا جس پر ایف آئی اے اور ایف بی آر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف تحقیقات شروع کیں عدلیہ کو انتظامیہ کے شکنجوں سے محفوظ رکھنا ہوگا یہ کہنا درست نہیں کہ ججز کو تعینات کرنے والے ہٹا بھی سکتے ہیں ججز کی تعیناتی آرٹیکل 1175 اے اور برطرفی 209 کے تحت ہوتی ہے صدارتی اختیارات محدود کرنے کا مقصد ان کا غلط استعمال روکنا تھا ماضی میں صدارتی حکم پر ریفرنڈم ہوتے رہے اب ریفرنڈم کے لیے صدر کو سفارش پارلیمان کو بھجوانا ہوتی ہے اب پارلیمان کی منظوری کے بعد صدر ریفرنڈم کرا سکتے ہیں مجوزہ معاملے میں صدر کو صرف شکایت کنندہ کی درخواست کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ معاملے کی سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 4 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ججز کی مدت تعیناتی محفوظ نہ ہو تو عدلیہ آزاد نہیں ہوسکتی آئین کے مطابق صدر پاکستان انتظامیہ کا حصہ نہیں ہوتے کیا ریفرنس میں صدر مملکت صرف ربر اسٹمپ کا کردار ادا کرتے ہیں صدر مملکت کو ربر اسٹمپ قرار دینا بہت سنگین ہوگا۔ میاں رضا ربانی کے دلائل منیر اے ملک کے موقف سے متضاد ہیں مجوزہ معاملے میں صدر مملکت کو بادی النظر میں ٹھوس مواد فراہم کیا گیا مواد قانونی طور پر جمع کیا گیا یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے جوڈیشل کونسل کی انکوائری متعلقہ جج کو نوٹس جاری کرنے پر ہی شروع ہوتی ہے جوڈیشل کونسل نوٹس جاری کرے تو کیا جج کو الزامات کا جواب نہیں دینا چاہیے۔

جوڈیشل کونسل کیخلاف آئینی درخواستیں کیسے قابل سماعت ہیں میاں رضا ربانی نے کہا کہ عدالتی آبزرویشنز پر کل جواب دونگا اور کوشش کرونگا کل اپنے دلائل مکمل کروں عدالت نے معاملے کی سمات ایک دن کے لیے ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں