مانسہرہ: مدرسے کے بچے سے زیادتی کے مقدمہ میں گرفتار ملزم قاری شمس الدین کا ڈی این اے میچ کرگیا

مانسہرہ (نمائندہ ڈیلی اردو/اے پی پی) خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے مدرسے میں بچے کے ساتھ زیادتی کے مرکزی ملزم کا ڈی این اے لیبارٹری رپورٹ میں میچ کر گیا ہے۔ یہ میڈیکل ٹیسٹ خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے کرایا گیا ہے جس میں بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق 27 دسمبر 2019ء کو ضلع مانسہرہ کے تھانہ پھلڑہ میں درج ہونے والے مقدمہ علت نمبر بجرم 53 سی پی اے اور 202/201/337 Aii/109/324 جس میں مرکزی ملزم قاری شمس الدین نے 10 سالہ طالب علم جو مدرسہ اسلامیہ تعلیم القرآن میں زیر تعلیم تھا، سے زبردستی جنسی زیادتی کرنے کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور دو دن تک حبس بجا میں رکھا تھا۔

اس مقدمہ کی تفتیش اپنے مراحل مکمل کرنے کے بعد حتمی چلان کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مقدمہ میں مرکزی ملزم قاری شمس الدین کا ڈی این اے نمونہ لیبارٹری رپورٹ کے مطابق میچ ہو چکا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹری رپورٹ، انجری رپورٹ اور عینی شاہدین کے جج کے روبرو 164 کے بیانات اور دیگر شواہد نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ مرکزی ملزم قاری شمس الدین نے ہی بچہ سے جنسی زیادتی کی تھی، اس کیس کے شریک ملزمان پر بھی ملزم کی مدد کرنے، بچہ کو حبس بے جا میں رکھنے اور شواہد کو چھپانے و مٹانے کے الزامات بمطابق شواہد تفتیش کا حصہ بنے ہیں اور شریک ملزمان کے جملہ جرائم کو ثابت کرتے ہیں۔

ڈی پی او مانسہرہ صادق بلوچ اور ایس پی انوسٹی گیشن مانسہرہ محمد عارف جاوید کے مطابق اس کیس کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمہ کا ٹرائل ماڈل کورٹ مانسہرہ میں کروانے کی سفارش کی جائے گی۔

واضح رہے کہ متاثرہ طالب علم کو دسمبر 2019 کے آخر میں ان کے استاد نے بالائی کوہستان میں قائم ایک مدرسے میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

بچے کے اہلِ خانہ کی جانب سے مانسہرہ پولیس کے پاس درج کروائے گئے مقدمے کے مطابق اسے قاری شمس الدین نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جو گورنمنٹ ہائی اسکول پرہانہ میں ٹیچر ہے اور شام میں اپنے بھائی کے مدرسے میں مذہبی تعلیم بھی دیتا تھا۔

میڈیکل رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ وحشی ملزم نے 10 سالہ طالبعلم کو 100 سے زائد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ بچے کے مزاحمت کرنے پر اسے شدید تشدد کا بھی نشانہ بنایا جس سے بچے کی آنکھیں سرخ اور خون نکلنا شروع ہو گیا تھا اور جسم پر زخم کے نشان پائے گئے تھے۔

ہسپتال لے جانے پر بچے کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوگئی تھی جس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے کارروائی شروع کی تھی۔

مانسہرہ میں بچے سے زیادتی کے بعد پولیس جب قاری شمس الدین کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی تو جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی رہنما مولانا کفایت اللہ نے انہیں پولیس کے حوالے کیا تھا۔

جنسی زیادتی کا شکار بچے کے رشتہ داروں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقامی سطح پر ان پر یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ اس واقعے سے مدارس اور علماء کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس واقعے کے بعد علاقے میں مختلف افواہیں اڑنے لگیں۔ کچھ کے مطابق ’بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ مدرسے کے ایک طالبعلم نے بنایا‘ تھا جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے ’بچہ مدرسے میں داخل ہوتے وقت بھی بیمار تھا جسے علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا تھا‘۔

ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد بچے نے عدالت کے سامنے بیان میں قاری شمس الدین کے بارے میں کہا تھا کہ انھوں نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں