حکومت کا لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کے ساتھ اہم معاہدہ

اسلام آباد (ش ح ط) اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) انتظامیہ اور معزول لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کے درمیان ایک اہم معاہدہ طے کیا ہوا ہے جس کے تحت مولانا مسجد میں نماز کی امامت تو کرا سکتے ہیں لیکن وعظ (خطبہ) نہیں دے سکتے۔

تفصیلات کے مطابق 7 فروری کو مولانا عبدالعزیز نے لال مسجد پر قبضہ کیا جس کے بعد سیکیورٹی حکام نے مسجد کو محاصرے میں لے لیا تھا۔

اسلام آباد انتظامیہ اور مولانا عبد العزیز کے درمیان 3 دن سے جاری مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت مولانا عبدالعزیز لال مسجد میں امامت تو کرا سکتے ہیں لیکن وعظ (خطبہ) نہیں دے سکتے جبکہ جامعہ حفصہ کے ڈھائے جانے پر مولانا عبد العزیز کو 35 لاکھ روپے بطور ہرجانے دیا جائے گا۔

وفاقی حکومت نے لال مسجد کی انتظامیہ کو خواتین کے مدرسے جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول میں دس مرلے اراضی فراہم کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت نے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا عبدالعزیز کے ساتھ طے کیے گئے معاہدے کی تفصیلات کا جلد اعلان کیا جائے گا۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مولانا عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد کی وفاقی حکومت کے ساتھ زبانی معاہدہ کر چکے ہیں تاہم تین دن میں تحریری معاہدہ تیار کرلیا جائے گا جس میں جامعہ حٖفصہ کی دوبارہ تعمیر بھی شامل ہے۔

لال مسجد کی انتظامیہ کے ترجمان ہارون غازی کے مطابق مولانا عبدالعزیز نے گزشتہ جمعے کا خطبہ بھی دیا تھا اور آئندہ جمعے کا خطبہ بھی مولانا عبدالعزیز ہی دیں گے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہارون غازی کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کے مزاکرات میں تسلسل نہیں ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کامیاب نہیں ہو پا رہے  ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے دس مرلہ اراضی پر متفق ہو جائیں گے، تو اس پر ہارون غازی کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔

ہارون غازی لال مسجد کے سابق نائب خطیب عبدالرشید غازی کے بیٹے اور مولانا عبدالعزیز کے داماد ہیں۔ ہارون غازی لال مسجد کے احاطے میں تعمیر کی گئی عمارت میں رہائش پذیر ہیں جبکہ وہ سرکاری ملازم بھی نہیں ہیں۔

ہارون غازی کا کہنا تھا کہ جس مکان میں وہ رہائش پذیر ہیں وہ مولانا عبدالعزیز نے اپنے پیسوں سے بنایا ہے، جبکہ سرکاری گھر جامع حفصہ کے ساتھ ہی منہدم کر دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر H-11 میں جامعہ حفصہ کی 20 کنال کی زمین کا معاملہ تاحال تنازعہ کا شکار ہے اور اسلام آباد سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

یار رہے کہ جنوری 2016 میں ایک وڈیو پیغام میں مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان کے زیر انتظام چلنے والے مدرسے جامعہ حفصہ کی طالبات نے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو اسامہ بن لادن اور لال مسجد آپریشن میں ہونے والی ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔

واضح رہے کہ لال مسجد سن 2007 میں اس وقت ملکی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنی، جب اس کے شعلہ بیاں پیش امام مولانا عبدالعزیز اور ان کے بھائی غازی عبدالرشید نے نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا۔ مسجد سے متصل مدرسے جامعہ حفصہ کی طالبات نے کئی مساج سینٹرز پر بھی حملے کیے۔ حکومت کا الزام تھا کہ مسجد اور مدرسہ انتہا پسندوں کا گڑھ ہے، جہاں تحریک طالبان پاکستان کی کھل کر حمایت کی جاتی ہے۔

حکومت نے دعویٰ کیا کہ مسجد سے اشتعال انگیز تقریریں ہو رہی ہیں اور ریاست کی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ان تمام عوامل کے پیش نظر دو ہزار سات میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ایک فوجی آپریشن شروع کیا، جس میں مبینہ طور پر سینکڑوں افراد بشمول غازی عبدالرشید ہلاک ہوئے۔ اِس آپریشن میں کرنل ہارون اسلام سمیت 11 فوجی افسران اور اہلکار بھی شہید ہُوئے۔ اس واقعے کے بعد مولانا عبدالعزیز کو حراست میں لیا گیا اور بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا لیکن ان کے لال مسجد آنے پر پابندی لگا دی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں