صحافیوں پر ریاست اور غیر ریاستی عناصر، دونوں کی جانب سےحملے کیےجارہے ہیں: بلاول بھٹو

کراچی ( ویب ڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں غیر اعلانیہ سینسرشپ سے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگ رہی ہے اور صحافی ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے دباؤ میں آرہے ہیں‘۔

کراچی پریس کلب میں عالمی آزادی صحافت کے دن پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں غیر اعلانیہ سینسر شپ ہے، جمہوری حقوق کے لیے جگہ بہت تھوڑی رہ گئی ہے، پاکستان میں یوم آزادی صحافت ایسے وقت میں منایا جارہا ہے جب میڈیا اور آزادی اظہار رائے پر روک ٹوک کی جارہی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’صحافیوں پر ریاست اور غیر ریاستی عناصر، دونوں کی جانب سے حملے کیے جارہے ہیں، 2013 سے 2018 کے درمیان قتل ہونے والے 26 صحافیوں میں سے صرف 16 کے کیسز عدالتوں تک پہنچے جبکہ ٹرائل صرف 6 کا مکمل ہوا اور ایک کیس میں ذیلی عدالتوں کی جانب سے فرد جرم عائد کی گئی تاہم کسی کو سزا نہیں ہوئی’۔

بلاول زرداری نے آزادی اظہار رائے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی ماں کا درجہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آزادی اظہار رائے پر قدغن سے صحافی اور میڈیا نمائندے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جینے کے حق کے بعد سب سے اہم حق آزادی اظہار رائے ہے کیونکہ ان کے بغیر دیگر حقوق پورے نہیں ہوسکتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ملک میں اس حق کو شدید خدشات لاحق ہیں، آزادی اظہار کو روکنے کے لیے کچھ لوگ ہتھیار رکھتے ہیں، دیگر مذہبی کتابیں، پاکستان میں کئی صحافیوں نے فرض کی راہ میں شہادت پائی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک آزادی اظہار رائے پر روک ٹوک خفیہ طور پر ہوتی تھی جس کی مچال ملک کے چند حصوں میں جیو اور ڈان پر لگائی گئی پابندی یا اشتہارات میں ہیر پھیر کرکے میڈیا کو ایک مخصوص لکیر تک محدود کرنا ہے، ان حربوں کا حوالہ سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنے کے کیس میں بھی دیا گیا تھا‘۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’تمام میڈیا کو ایک ادارے کے تحت لانے پر بات کی جارہی ہے، کچھ عرصہ قبل حکومت نے سوشل میڈیا پر بھی کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا، صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ ریاست آزادی اظہار رائے اور اختلاف رائے کو روکنا چاہتی ہے‘۔

بلاول زرداری نے زور دیا کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ اور ان کی سیکیورٹی کے پیش نظر قوانین بنائے اور معاشی دباؤ کو آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کے لیے نیا حربہ بنانے کی پرزور مذمت کرے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی نئے میڈیا ریگولیٹری ادارے کے قیام کی مخالفت کرتی ہے اور جس طرح سے پری وینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کو اختلاف رائے، تنقید اور دیگر بیانیوں کو روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اس کی مذمت کرتی ہے‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں