چھوٹی انڈسٹریز عوامی خوشحالی کی ضامن (میر محمد یاسین)

ہمارا ملک پاکستان جس کی 45 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، تقریباً ہر گھر میں بے روزگار روزگار کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ہر دور کا حکمران انہیں خوشحالی ملازمت کا اسرا ضرور دیتا ہے لیکن ملازمت تو نہیں ملتی الٹا مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایسے واقعات تواتر سے روز اخبارات و سوشل میڈیا کی زینت ضرور بنتے ہیں کہ فلاں نے اپنے بیٹے بیٹی کو غربت کی وجہ سے بازار میں بیجھا یا فلاں نے غربت سے تنگ آکر فیملی کو زہر دیکر خود خودکشی کرلی ۔ ایسی ہی ایک تصویر گزشتہ روز پشاور کے ایک بزرگ کی نظر سے گزری معلومات کرنے پہ کسی سوشل میڈیا صارف نے بتایا کہ ان حضرت کی چار بیٹیاں ہیں بیٹا نہیں حضرت نے بیٹی کی شادی کے جہیز کے لئے قرض لیا پھر وہ کچھ قسطیں ادا کی تو تین چار قسطیں رہے گئیں پھر سود چڑھتا گیا اور یہ قرضہ اتارنے میں مشکل کا شکار ہوتا رہا آخرکار قرضہ دینے والے نے ڈھمکانے کے لئے گنڈے بیجے اور قرض کے بدلے بیٹی کی ڈیمانڈ کی جو اس غیرت مند انسان کے دل نے گوارا نہ کیا ۔ اور کرتا بھی تو کیا کرتا نہ پولیس اس کی سنتی نہ عدالتوں کے لئے اس کے پاس پیسہ تھا سوچا کہ میں نہ رہا تو بیٹیوں کا کیا ہوگا بھاگ بھی نہیں سکتا تھا سو اس بیچارے نے بھی بیٹیوں کو زہر دے کر خود بھی خودکشی کرلی۔

یہ ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ ہے سود پہ پابندی کے باوجود بند نہیں ہوا ایسے ہمارے سیکڑوں لوگ روز خودکشی کرتے ہیں کوئی سود خور قرضہ کی وجہ سے تو کوئی مائکروفائنس بینک کے قرضہ کی وجہ سے کوئی بیروزگاری کی وجہ سے تو کوئی غربت کی وجہ سے۔

ہم ایک فلاحی ریاست کی بات تو کرتے ہیں مگر اس کو بنانے کی کوشش نہیں کرتے ایوب خان کے بعد کسی نے انڈسٹریل زون نہیں لگائے ۔ زراعت کو فروغ نہی دیا اسے جدید خطوط پر استوار نہیں کیا ۔ ہمارے ملک میں پٹیشنل ہے میں عمران خان کے مرغیوں انڈوں کٹوں وغیرہ کی حمایت کرتا ہوں اس میں ، میں ایک اور ہنر ایڈ کرتا ہوا چلوں وہ ہے ہاتھ کا ہنر جیسے ہینڈ ایمبرائیڈری ، ہینڈی کرافٹس، گھروں میں تیار ہونے والی مصنوعات جن کو ایک مارکیٹ کی ضرورت ہے۔

یعنی دیسی مرغیوں، لائیولی ہوڈ کو ایک نیشنل انٹرنیشنل مارکیٹ دینے کی ضرورت ہے جو نہ صرف ہمارے ملک کی اکانومی کی حالت بہتر کرے گی بلکہ غربت میں بھی نمایا کمی آئے گی ۔ بہترین ہنر کی باہر ڈیمانڈ ہے بس حکومت کو چاہئے کہ لوکل لیول پہ ان کی حوصلا افزائی کرے گاؤں گاؤں میں انڈسٹریل ہومز بنائے وہا سے مال شہر کی مارکیٹوں تک لایا جائے ان کو معقول معاوضہ دیا جائے نہ وہ لوگ خود اپنی زندگی بنائیں گے ان کو کیس انکم سپورٹ پروگرام کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

میری اپنی رائے و تجربہ ہے کہ گورنمنٹ ہاتھ کے ہنر کو پروموٹ کرے کیونکہ ہم ایک امیر کلچر کے مالک ہیں ہمیں اپنی ثقافت کو پروموٹ کرنا چاہئے ۔

اگر ہم یوسی یا وارڈ لیول پہ انڈسٹریل ہوم اور سب ڈویژن کے لیول پہ ڈسپلے سینٹر بنائیں ایک چھوٹی سی مارکیٹ بنائیں تاکہ وہ ان کے بنائے ہوئے ہینڈی کرافٹس ڈزائن کو پروموٹ کرے۔ اگر ایک گھریلو خاتون کو ماہانہ 2 سوٹوں کا 6 سے 10 ہزار مل جائیں تو وہ خود اپنے گھر کی کفالت کرے گی۔

ضرورت ایک اسیے معاشی پیکج کی ہے جو غریب عوام کو اٹھائے ان کو اپنے پاؤ پہ کھڑا کرے 10 نئے انڈسٹریل زون مختلف چھوٹے چھوٹے شہروں میں بنائے جائیں۔ تاکہ ان لوگوں کو وہیں روزگار میسر ہوں اور وہ بڑے شہروں کا رخ نہ کریں کیونکہ بڑے شہر اب حد سے بھر گئے ہیں ۔
ائیں ملت کو تعمیر کریں۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں