زمانہ جاہلیت اور ہمارا موجودہ دور ! (میر افضل خان طوری)

زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ لڑکیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ اس زمانے میں ایک شخص نے اپنی چھوٹی بچی کو زندہ دفن کرنے کیلئے اپنے گھر سے روانہ کیا۔ بچی راستے میں اپنے بابا کے ساتھ چھوئی چھوئی باتیں کرتی تھیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشیں اپنے باپ کو بتاتی رہی تھی۔ جب وہ اپنی بچی کو لئے آبادی سے دور صحرا کی طرف پہنچ گیا تو انھوں نے بچی کو ریت پر بٹھایا اور گدال سے زمین کھودنا شروع کیا۔ بچی اس دوران اپنے بابا سے باتیں کرتی اور ان کی داڑھی کے گرد و غبار کو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے صاف کرتی۔ جب زمین کی کھدائی مکمل ہوئی تو اس نے اپنی بچی کو کھڈے میں سیدھا کھڑا کیا اور اطرف کو مٹی سے بھرنے لگا۔ جب مٹی بچی کے گردن تک پہنچی تو بچی نے اپنے باپ سے کہا بابا جان آپ مجھے مٹی میں کیوں بند کر رہے ہو۔ تو باپ اس وقت جواب دینے سے قاصر تھا۔ وہ اپنے زمانہ جاہلیت کے رسم کی وجہ سے مجبور تھا۔

بچی بہت چختی چلاتی مگر باپ کی کی آوازیں سننے کو تیار نہ تھا۔ آخر کار باپ نے آنکھیں بند کر کے اپنی بچی کو سر تک مٹی میں دھانپ لیا اور بچی کو زندہ مٹی میں دفن کر کے روتے ہوئے گھر کی راہ لی۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے بہت سے واقعات کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی نے ایسے تمام تر برے رسومات کا خاتمہ کیا۔ عرب معاشرے میں انسانی اقدار کی نئی روح پھونک دی۔ قرآن مجید میں %80 آیات انسانوں کے باہمی حقوق اور معاملات کے بارے میں نازل ہوئی۔ مگر بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم قرآن مجید کے صرف %20 حصے کا ذکر کرتے جو عبادت سے سلسلے میں ہے۔ ہم نے اخلاقیات ، انسانوں کے حقوق اور معاملات والے %80 حصے کو پس پشت ڈالدیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے نے عربوں کے زمانہ جاہلیت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج ہم نا صرف چھوٹے چھوٹے بچیوں اور بچوں کو قتل کرتے ہیں بلکہ پہلے انکے ساتھ زیادتی بھی کرتے ہیں۔ اکثر واقعات مدرسوں اور مسجدوں میں رونما ہو رہے ہیں۔ جس اسلام نے ہمیں اخلاقیات اور بنیادی انسانی حقوق کا درس دیا تھا۔ آج ہم اسی اسلام کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔

ایسے واقعات سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ ہمارے بچے آج مسلمانوں کے گلیوں ، محلوں اور بازاروں میں محفوظ نہیں ہیں۔ انسان نما وحشی درندے مسلسل اس گھناؤنے کھیل میں مشغول ہیں۔ علماء طبقہ بھی ایسے بھیانک جرائم پر خاموش نظر آرہا ہے۔ آج تک کسی مجرم کو نشان عبرت بنانے میں ہمارے علماء نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔ بحیثیت ایک پاکستانی ہم سب ایسے جرائم پر خاموش ہیں۔ سب کو صرف اپنے ہی بچوں کی فکر ہے۔ دوسروں پر کیا بیت رہی ہے ، کسی کو اس کی فکر نہیں ہے۔ روز ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہم ایسے واقعات کے بارے میں سنتے رہتے ہیں۔ انکے والدین اور گھر والوں کی چیخیں سنتے ہیں مگر ہمارے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ ہمارے دل پھتروں کیطرح سخت ہوچکے ہیں۔

اگر ایسے مجرموں کیخلاف سخت کارروائی نہیں کیجاتی ہے ،اگر بحیثیت پاکستانی ہم ایسے وحشی درندوں کو سزا دلوانے کیلئے آواز بلند نہیں کرتے تو یاد رکھنا ہمارا معاشرہ بہت جلد بہت بڑی تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں