چاند، شرعی حکم اور سائنس۔۔۔! (شیخ نعیم کمال)

قارئین گرامی قدر! مجھے نہ تو فواد چوہدری اور موجودہ حکومت کے کردار پر بات کرنا ہے اور نہ ہی مولانا حضرات پر تنقید کے نشتر چلانا مقصود ہیں۔ میرٹ اور اصول کی بات پیش خدمت کرتا ہوں۔

یہ کہ ہماری جدید سائنس جو کہ صرف ثابت شدہ حقائق اور بغیر کسی ابہام کے بات کرتی ہے جس بابت فرقان حمید نے فرمایا کہ ہم تمہیں (انسانوں کو) اپنی آیات تمہارے نفوس کے اندر سے ہی ظاہر کریں گے۔ بلا شبہ وہ تحقیق و مشاہدہ کی مرہون منت ہے اور میری ناقص رائے میں سائنسی ایجادات و ترقی ہے جو حق تعالیٰ نے انسان کو اپنے علم سے تھوڑا سا علم عطا کیا ہے اسکا ظہور سائنس بھی ہے جو کہ عین قرآنی تعلیم ہے جیسے قرآن کریم خود کہتا ہے اے ایمان والو خدا کی آیات پر بھی اوندھے منہ نہ گر پڑو۔ بلکہ ایمان بالغیب کے بعد تحقیق و تدبیر کے ذریعے ایمان اولی لائو اور قرآن کریم پر تدبیر کیوں نہیں کرتے کیا تمہارے دلوں کو تالے پڑ گئے۔

لہذا اس موضوع پر سائنس کی تحقیق خلاف عقل و قرآنی احکامات نہ ہوئی، اب کوئی نہ مانے تو یہ اسکا ذاتی فعل و رائے ہو گی نہ کہ میرٹ۔
اب دیکھتے ہیں کہ حضور پر نور شافع یوم النشور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اصول عطا فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزہ شروع اور چاند دیکھ کر ہی عید کی جائے۔ یہی حکم فیصل ہے جس پر تمام امت بلکہ ہر خاص و عام متفق ہے۔

جدید سائنس دعویٰ کرتی ہے اور تجربے سے ثابت کرتی ہے کہ موسم صاف ہو تو پیدائش کے کم از کم 15تا 16 گھنٹے بعد چاند دوربین سے دیکھا جا سکتا ہے آنکھ سے نہیں۔ اور پیدائش کے 24 گھنٹے بعد چاند آنکھ سے دیکھا ئی دینے کے قابل ہو جاتا ہے، بشرطیکہ کہ مطلع صاف ہو۔ یہاں یہ نوٹ کر لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں دور بین نہ تھی۔ یعنی آنکھ پر اکتفا کیا جاتا تھا جسکا واضح معنی یہ نکلا کہ کم از کم چاند کی پیدائش کو جب 24 گھنٹے ہو جاتے تو رسالت مآب کے دور مبارک میں یہ فیصلہ ہوتا کہ کل روزہ ہے یا عید۔ مگر یہاں مولانا حضرات سائنسی ایجاد دور بین کا سہارا لیکر اگر 15تا 18 گھنٹے کا پیدا شد چاند بھی ہو تو آپکو عید کرنے یا روزہ رکھنے کا فیصلہ سنا دیں گے۔ قارئین گرامی ایک منٹ رکیں ابھی 24 گھنٹے کی پیدائش نہیں ہوئی مگر سائنس کی برکت سے روزہ یا عید ہو بھی گئی یہاں سائنس جائز کیسے قرار پائی؟ سائنس کی ایجاد کا سہارا لیکر جزوی علم کو فقہہ اسلامی کا حصہ تو بنانا پسند ہے مگر اس موضوع پر سائنس کی کامل تحقیق و علم سے اجماع کے ساتھ استفادہ حاصل کرنے میں کونسا اصول شرعیہ مانع ہے؟

از راہ تجاہل عارفانہ اپنا مشاہدہ عرض کرتا چلوں بندی ناچیز قریبا 5 سال لندن/برطانیہ میں مقیم رہا اور اسطرح تقریباً 10 عیدیں وہاں ادا کرنے کا موقع میسر آیا۔ پورے وثوق سے بیان کرتا ہوں کہ مذکورہ تمام عیدین پر مختلف مسالک کے درمیان اختلاف دیکھا اور دو دن عید نماز پڑھتے ہوئے افراد امت کو مشاہدہ کیا۔ حتی کہ ایک سال برطانیہ کی مختلف مساجد میں 3 دن بھی عید پڑھی گئی۔ دل پارہ پارہ ہوا کہ امت میں اتحاد نام کی چیز نہیں۔ وہاں معاملہ کچھ یوں تھا کہ مسلک اہل حدیث نے مسمم ارادہ بنا رکھا تھا کہ سعودیہ کے ساتھ ہی عید کا اعلان کریں گے۔ اور مسلک اہل سنت پاکستان کے ساتھ اعلان عید کرتے تھے جبکہ اہل تشیع ایران کے ساتھ۔ کتنی مضحکہ خیز داستان ہے۔ یونیورسٹی آف لندن کے گورے کلاس فیلوز نے ہم پاکستانیوں پر کافی تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے جاہل ہونے اور جدید سائنس اور سیٹیلائٹ کی مدد نہ لینے پر بنیاد پرستی کا الزام و طعن و تشنیع کے خوب نشتر چلائے۔ بندہ ناچیز کو اس پر اندیشہء فردا لاحق ہوا تو خود تحقیق اور مطالعہ کیا تو ادراک ہوا کہ برطانیہ سے پاکستان کا وقت 5 گھنٹے آگے ہے اور سعودیہ سے 2 گھنٹے آگے ہے اسطرح برطانیہ میں چاند سعودیہ سے 3 گھنٹے پہلے پیدا ہو جاتا ہے، مگر سنی علماء کی ہٹ دھرمی اللہ پناہ (حالانکہ میں خود سنی العقیدہ ہوں) چاند کی پیدائش کے فیز اور سیٹیلائٹ مدد تو درکنار یہ سادہ سا 3 گھنٹے کا فرق علماء کو سمجھانا جوئے شیر لانے کے مترادف معلوم ہوا۔ آگے ہمارا شرعی اور فقہی معیار کیا ہوا نتیجہ آپ خود اخذ کریں۔ بغرض اختصاردرج ذیل رائے عرض ہے۔

چاند کی پیدائش کے فیز اور گھنٹے گن لینا ہمارے سیٹیلائٹ سپورٹ اور دیگر فلکیاتی علوم و حساب کتاب سے نامکن نہیں بلکہ 99 فیصد درست حساب ممکن ہے یہ معلومات روزانہ کے حساب سے مختلف یونیورسٹیز اور فلکیاتی اداروں کی ویب سائٹ پر موجود ہوتی ہیں۔ اب دوسری بات اگر سائنس کے حساب سے 24 گھنٹے کی پیدائش پر روزہ اور عید کا کیلنڈر ڈیزائن کر لیا جائے تو یہ وہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیم کردہ شرط پوری کرتا ہے کہ آنکھ سے دیکھ کر روزہ اور عید کی جائے۔ اب بتائیں سائنس نے تو آپکو شریعت و فقہہ کے بہت بڑے مسئلے کا حل بغیر کسی تنازع کے پیش کر دیا۔ میرے گرامی قدر قارئین یہ مولانا حضرات جب کم عمر چاند کو دوربین سے دیکھ کر فتویٰ جاری کرتے ہیں انکو مسئلہ اجتہاد سمجھ آ جاتا ہے کہ روزہ و عید جائز ہے۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللّٰہ نے تو سادہ آنکھ کا فرمایا تھا۔ کیونکہ سادہ آنکھ سے دیکھا تھا چاند رسول اللہ نے نہ کہ دور بین سے یعنی چاند کی 24 گھنٹے کی پیدائش ہر صورت ہوتی تھی دور رسالت مآب میں۔

اب سوال رہا کہ جو کیلنڈر ڈیزائن کیا گیا ہے یا کیا جائے اس میں چاند کی پیدائش کے کتنے گھنٹوں کو مد نظر رکھا گیا ہے اور چاند کا کونسا فیز زیر بحث لائے ہیں؟ یہ ہے اصل سوال ہے جو آپ متعلقہ منسٹری اور کیلنڈر مرتب کرنے والے سائنسدانوں اور ڈپارٹمنٹ سے کر سکتے ہیں۔ اگر مولانا حضرات ان علوم کو جانتے ہوں تو یہی سوال وہ بھی کریں اور اجماع سے احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے امت کو یکجاء کر دیں۔ یہاں سوال علم کا نہیں بلکہ جہالت کا ہے اور اجارہ داریوں کا ہے۔ کسی کو امت کا درد نہیں اور ہے تو کس کو؟ میرا آپ سب سے یہی سوال ہے؟ واللہ اعلم باالصواب۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں