نفس انسانی کا نظام عدل۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

حیوان ناطق (انسان) کو قدرت نے مختلف قسم کے جذبات اور احساسات سے نوازا ہے۔ یہ تمام جذبات انسان کے اندر لا منتناہی قوتیں پیدا کر دیتی ہیں۔ ان تمام قوتوں کا حد اعتدال میں ہونا ہی ہر انسان کے انسانیت کی دلیل ہے۔ ان میں کسی بھی قوت کا اپنے حدود سے تجاوز انسان کو انسانیت کے بلند ترین مقام سے نیچے گرا کر جانوروں کے صف میں کھڑا کر دیتی ہیں۔ ان قوتوں کے حد اعتدال کو عدالت کہا جاتا ہے۔

ارسطو کے زمانے سے لے کر آج تک نفس انسانی میں موجود جن خاص قسم کے قوتوں کا ذکر کیا جاتا رہا ہے ان میں سے تین بڑی قوتیں قوت عاقلہ، قوت غضبیہ اور قوت شہویہ ہیں۔

قوت عاقلہ کا حد کمال حکمت ہے، قوت غصبیہ کا حد کمال شجاعت ہے اور قوت شہوانیہ کا حد کمال عفت ہے۔ ان تمام قوتوں کے حد اعتدال کو عدالت کہا جاتا ہے۔

دنیا کی سب سے پہلی عدالت خود انسانی نفس کے اندر موجود ہے۔ انسان جب تک اپنے اندر موجود عدالتی نظام کو موثر اور فعال کرنے کی سعی نہیں کرتا تب تک وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔
ایک انسانی جسم میں ان تمام قوتوں کا اعتدال جسمانی عدالت کو جنم دیتا ہے۔ اس عدالت کا جج انسان خود ہوتا ہے۔ ہر ایک انسان کو قدرت نے اچھائی اور برائی کے بارے میں الہام کیا ہے۔ انسانی فطرت میں اچھائی سے محبت اور برائی سے نفرت کا جذبہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔

علم کا مقصد تو صرف ان مضمر قوتوں کو درک کرنا ہوتا ہے۔ انسان ساری زندگی علم ، تجربات اور دنیا کی سیر کرنے سے اپنے اندر پائی جانیوالی قوتوں کو دریافت کرتا رہتا ہے۔ دنیا کے تمام عقل مند اور باشعور انسان آپس میں میں اعتدال کے پیکر ہوتے ہیں۔ یعنی معاشرتی امور میں بھی اعتدال ہی سب سے اہم اور لازمی جز ہے۔

ایک انفرادی عدالت کے بعد معاشرتی اخلاقی اقدار کو بر قرار رکھنے کیلئے اجتماعی عدالت کی بھی ضروری ہوتی ہے۔ یہ عدالت انسانوں کے مجموعی افعال کو حد اعتدال میں رکھنے کیلئے فیصلے کرتی ہے۔

دنیا کا ہر وہ معاشرہ عروج کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے جہاں انفرادی عدالت کے ساتھ ساتھ اجتماعی عدالت کا موثر ترین نظام موجود ہو۔

بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ( رح )

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں