کیا ہم پاکستان میں لیڈرز پیدا کر رہے ہیں؟ (میر افضل خان طوری)

انسان نے اپنے ایک ایک صلاحیت کو درک کرنے کیلئے صدیوں محنت کی ہے ان صلاحیتوں کے بل پر انسان آج اپنے اردگرد کے ماحول کو مسلسل تبدیل کر رہا ہے۔

دنیا کا ہر انسان خود اپنی ذات کا لیڈر ہوتا ہے انسان اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کیلئے اعضاء جسمانی کو لیڈ کرتا ہے انسان کے اعضاء و جوارح اسکے دماغ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔

جو انسان خود اپنے وجود کو لیڈ کرنے میں کوتاہی کا مرتکب ہوجاتا ہے اس کو پھر کوئی اور اپنے مقصد کیلئے لیڈ کرتا ہے اس طرح انسان کسی دوسرے کے مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے تگ و دو کرتا ہے۔

انسان کیلئے سب سے مشکل ترین کام خود اس کی اپنی ذات کو لیڈ کرنا ہوتا ہے اس لئے ہر انسان کی سب سے پہلی ترجیح خود اسکی اپنی ہی ذات کی راہنمائی ہونی چاہئے۔

لیڈرشپ محض نعرے لگانے اور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے فالورز بنانے کا نام نہیں ہے بلکہ لیڈرشپ مزید لیڈرز پیدا کرنے کا دوسرا نام ہے اگر آپ دو لوگوں میں انکی ذات اور مقاصد کے بارے میں اگاہی پیدا کر رہے ہیں تو ضرور آپ ایک لیڈر ہیں۔

لیڈرشپ معمولی کاموں کو غیر معمولی طریوں سے کرنے کی طرف انسان کو مائل کرتی ہے لیڈرشپ انسان کی عزت نفس کی آبیاری کرتی ہے اگر ہمارے سکول کالجز اور یونیورسٹیوں میں بچوں کی عزت نفس آبیاری نہیں ہو رہی ہے تو ہم لیڈر پیدا نہیں کر رہے۔

ہم لکیر کے فقیر اور روایتوں کے اسیر پیدا کر رہے ہیں ہم صرف روایتی بتوں کی پرستش کیلئے نئے براہمن پیدا کر رہے ہیں اگر ریاست لوگوں کی عزت نفس کو پروان نہیں چڑھا رہی ہے تو وہ سٹیٹ نہیں ہے بلکہ وہ قبضہ گروپوں کی آماجگاہ ہے لیڈرشپ روایتی بتوں کو توڑنے اور نئے منزل کی تلاش کرنے کے عمل کو پروان چڑھاتی ہے۔

لیڈرشپ عزت کرانے کا نام نہیں ہے لیڈرشپ عزت دینے کا نام ہے لیڈر نئی امنگوں اور امیدوں کا پیغمبر ہوتا ہے لیڈر لوگوں میں جیت کی امید اور کامیابی کا جذبہ پیدا کرتا ہے لیڈرشپ لوگوں کو مشکلات سے بھاگنے کی بجائے مشکلات کا سامنا کرنا سکھاتا ہے لیڈر ہمیشہ مشکلات کو مواقع سمجھ کر ان کو اپنے حق میں تبدیل کرتا ہے۔

ہماری ریاست اور تمام تر تعلیمی ادارے جب تک عوام کو روایتی اسیر بننے کی بجائے لیڈر بننا نہیں سکھاتے تب تک ہماری قوم کی حیثیت کنویں کی بیل جیسی ہی رہے گی پھر ہم میں اور مویشیوں کے ریوڑ میں کوئی خاص فرق نہیں ہوگا ہم کبھی بھی اپنے مقاصد اور ترجیحات طے نہیں کر سکیں گے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں