ہندوتوا دہشتگردی…! (انشال راؤ)

بھارتی ریاست جھارکھنڈ میں ہونے والا یہ کوئی پہلا واقعہ جب سے ہندوتوا بریگیڈ حکومتی گدی پہ براجمان ہوئی ہے تب سے ہی ریاستی پالیسی کے تحت ہندوتوا بریگیڈ کی دہشت گردی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور بھارت میں مسلمانوں پر وحشیانہ ظلم و ستم جیسے لا تعداد واقعات روزِ روشن کی طرح بھارت کی مکروہ اور گھناؤنی ذہنیت کی عکاسی کر رہے ہیں. اٹھارہ جون کو جھارکھنڈ میں منصوبہ بندی کے تحت کیا جانے والا واقعہ جس میں ایک 24 سالہ تبریز انصاری کو باندھ کر راڈوں اور لاٹھیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے “جے شری رام” کا وِرد کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے. ہندوتوا دہشتگرد معصوم تبریز کو 12 گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بناتے رہے موقع پر موجود ہندوتوا سے متاثر مجمع بھی تبریز کی رحم کی اپیلوں پر قہقہے لگا کر مزے لیتا رہا. پولیس نے روایت کے مطابق تبریز انصاری کو ہی چور ظاہر کیا، نیم مردہ حالت میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تو ریاستی پالیسی کے تحت علاج کرنے سے انکار کردیا. اس سے بڑھ کر افسوسناک بات کیا ہوگی ڈاکٹر جو مسیحا ہوتا ہے وہ بھی دہشتگرد بن گئے. تبریز انصاری چار دن بعد شہید ہوگیا.

اس کے بعد بھارت کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں کیونکہ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ بھارت کی پالیسی ہے جس کا اظہار بھارتی وزیر مذہبی امور اپنے بیان میں بطورِ پیغام دے چکے ” ہم بھارت کو ہندوتوا ریاست بنا کر رہیں گے اس کے لیے جو راستہ اختیار کرنا پڑا کریں گے دسمبر 2021 تک ایک ایک مسلمان اور عیسائی کو ہندو سناتن دھرم کا پیروکار بنا کر رہیں گے”۔

ہندوتوا دہشتگردوں کے نظریہ مہابھارت کے تحت انہوں نے ہندوستان کو دریائے آمو تک سناتن ہندو دھرم کی سرزمین بنانا ہے جس میں کوئی غیرمذہب یا باہر سے آنے والا نہ رہے اس کے تحت ہی را نے افغانستان کو اپنی آماجگاہ بنارکھا ہے اور پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کررہا ہے یہی وہ نظریہ ہے جس کے تحت بھارت کی مذہب کے معاملے میں عدم برداشت کی پالیسی چل رہی ہے اور ہندوتوا دہشتگردوں کو فری ہینڈ دے رکھا ہے جن کے ظلم کا شکار آئے دن کوئی ناں کوئی معصوم مسلمان بن جاتا ہے۔

اس دہشتگردی کی بھارتی ریاستی سرپرستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہندوتوا دہشتگرد وزیراعلیٰ نے جب مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے لیے انعام کا اعلان کیا تو ریاست خاموش رہی، ادیتیا ناتھ یوگی نے مسلمانوں کے خلاف منافرت سے بھرپور تقریریں، بیانات و عملی اقدامات کیے ریاست خاموش رہی اس کا مطلب یہ انفرادی کام یا سوچ نہیں بلکہ ہندوتوا دہشتگرد ریاست بھارت کی سوچ و فکر کی عکاسی ہے جوکہ دنیا کے امن کے لیے خطرناک ہے جس طرح اخلاق پر گوشت خوری کا الزام لگاکر قتل کیا گیا الٹا مقدمہ بھی اسی کے اہل خانہ کے خلاف درج کیا گیا دنیا خاموش رہی، پھر آئے دن اس سلسلے میں تیزی آتی گئی جو اب بالکل ہی بےلگام ہوگئے ہیں اور ایک اور معصوم تبریز انصاری ہندوتوا دہشتگردوں کی خونی ہوس کا نشانہ بن گیا لگاکر قتل کردیا جاتا ہے بھارتی ریاست نہ صرف خاموش بلکہ مکمل سرپرستی فراہم کررہی ہے جبکہ ہندوتوا دہشتگردوں کی مکاری کا یہ عالم ہے کہ بیف کے بڑے چھوٹے ایکسپورٹر تقریباً سب ہی ہندو ہیں اور الزام بیچارے مسلمانوں پر، بھارت دنیا میں برازیل کے بعد دوسرا بڑا بیف ایکسپورٹر ملک ہے بڑے بڑے بیف ایکسپورٹر یونٹس کے مالکان ہیں ہندو مگر کمپنی کا نام مسلمانوں کا رکھ کر کاروبار چلارہے ہیں چند بڑے بیف ایکسپورٹ گروپس اور ان کے مالکان میں سنیل کپور کی عربین ایکسپورٹ لمیٹڈ، مدن ایبٹ کی ایم کے آر فروزن فوڈ، اے ایس بندرا کی پی ایم ایل انڈسٹریزاس کے علاوہ النور اور ستیش کی الکبیر وغیرہ ہیں الکبیر کا صرف ایک یونٹ ہندووں کے گڑھ میں موجود ہے جوکہ 400 ایکڑز پر محیط ہے اور سالانہ کاروبار تقریباً سات سو کروڑ تک ہے دنیا میں تقریباً 95 لاکھ میٹرک ٹن گوشت ایکسپورٹ ہوتا ہے جس میں تقریباً 20 لاکھ میٹرک ٹن اکیلا بھارت ایکسپورٹ کرتا ہے جس میں مسلمان تاجر نہ ہونے کے مترادف ہیں کل کا کل کاروبار ہندووں کا ہے اس کے علاوہ ہندومت کے مندروں میں مختلف تہواروں اور میلوں میں لاکھوں جانوروں کی بلی چڑھادی جاتی ہے صرف ہماچل پردیش کے مندر میں ہر سال لاکھوں جانور زبح کردیے جاتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ بیف کو بطور فوڈ کنزیوم کرنے والوں میں عیسائی اور یہودی سرفہرست ہیں جن کے ساتھ ہندوتوا دہشتگردوں کا گٹھ جوڑ ہے اسرائیل بھارت کا بڑا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے مگر مکار ہندوتوا دہشتگرد الزام و تشدد مسلمانوں پہ کرتے ہیں جب بھی گوشت کی بات ہوتی ہے تو ہندوتوا دہشتگرد اور انکے ایجنٹ مسلمانوں پہ زبان کی دھاریں تیز کرکے ٹوٹ پڑتے ہیں جسے بعد میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور آئے دن گوشت خوری کا الزام لگاکر کسی مسلمان کو شہید کردیا جاتا ہے بلکہ پوری پوری کالونیوں تک پہ چڑھائی کردی جاتی ہے جس پر بھارتی سرکار الٹا مقدمہ بھی متاثرین ہی کے خلاف درج کرتی ہے۔

مسلمانوں کو اب اس نازک صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے ایک ہوکر ہندوتوا دہشتگردوں کو نہ صرف روکنا چاہیے بلکہ دنیا میں بھارت کا اصل چہرہ بےنقاب کرنا چاہئیے اور ہر مسلمان کو خواہ وہ کہیں بھی موجود ہو کسی بھی خطے کا رہنے والا ہو یہ کام فرض سمجھ کر کرنا چاہیے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں