معلومات سے خوفزدہ! (شیخ خالد زاہد)

معلومات مختلف شعبہ ہائے علوم سے مطابقت رکھتی ہے، جیسا طالب علم ہوگا اسکو معلومات بھی اسی نوعیت کی درکار ہوگی۔ اس طرح سے معلومات کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، معلومات کی بنیاد پرانفرادی مستقبل ترتیب پاتا ہے، پیشہ ورانہ محارت حاصل کی جاتی ہے جو کہ اجتماعی مستقبل کی رہنمائی کرنے میں مدد گا رثابت ہوتا ہے۔ اگر یہی معلومات انسان کی سمجھنے کی صلاحیت سے بڑھ جائے تو نقصان کا باعث بن جاتی ہے پہلے انفرادی طور پر اور پھر یہی اجتماعی بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ بیشک علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسانیت نے انسانیت کی اہمیت کو سمجھا، علم کی ہی بدولت معاشروں ننے اقدار مرتب دئیے۔ توکل کامران نامی یمنی خاتون جنہیں نامساعب حالات میں عورتوں کے حقوق کیلئے کام کرنے پر نوبل انعام سے نوازا گیا، ان خا خاتون سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ تو بہت باشعور ہیں پھر یہ حجاب کیوں توکل کامران نامی خاتون نے جو جواب دیا وہ واقعی علم اور شعور کی کے بغیر ناممکن ہوتا انہوں نے فرمایا کہ انسان کی جب تخلیق کی گئی تو وہ برہنہ تھا اور علم سے عاری تھا پھر اسے علم دیا گیا جب علم اور شعور آگیا تو اس نے اپنے تن کو ڈھانپا تو ہم بھی وہی کر رہے ہیں۔ بات ہے معلومات کے حاصل ہوجانے پر اسے سنبھال رکھنا اور اس بات کا یقین کر لینا کہ جن لوگوں کیساتھ اس علم اور شعورر کو تقسیم کرنا ہے کیا انکی اہلیت اس علم کے عین مطابق ہے۔ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھتا جا رہا ہے کہ قدرت نے علم اٹھا لیا ہے اب صرف الفاظ رہ گئے ہیں، اب تلقین سے خالی الفاظ گونجتے ہیں جن پر دھیان دینے کی فرصت نہیں ہے۔ انسان علم پر کتنا ہی عبور کیوں نا حاصل کرلے لیکن ایک نظام فلکیات نہیں بنا سکتا، طبیب علاج تو کرسکتا ہے لیکن جن نظاموں کیساتھ قدرت نے بنائی ہے، قطعی نہیں بنا سکتا۔غار سے نکل کر مختلف ادوار سے ہوتے ہوئیہم (بنی نوع انسان) مادہ پرستی کے دور میں پہنچ چکے ہیں اور اگر غور کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ غار کا دور بھی مادہ پرستی کا ہی تھاجس سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی کہ انسانیت کا واپسی کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ کسی نے خوب کہا کہ تعلیم ہمیں انگوٹھے سے دستخط تک لائی اب جدی ترقی ہمیں دستخظ سے نکال کرے واپس انگھوٹے کے دور میں دھکیل رہی ہے۔

معلومات جسے جانکاری بھی کہا جاتا ہے، کا علم سے بڑا گہرا تعلق ہے لیکن اس تعلق کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے۔دنیا میں مختلف قسم کے لوگ ہوتیہیں جن میں اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو مفادات کی معلومات کو ترجیح دیتے ہیں۔ کاروباری افراد کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ انکی اولاد فائدے اور نقصان سے متعلق علم حاصل کرے اور اپنے کاروبار کو اور آگے بڑھائے۔اسی طرح تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ مادہ پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی نسلوں کو آسائشوں سے محبت کرنے کا درس دیتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ مفادات کی بنیاد پر معلومات کی طرف توجہ کی جاتی رہی ہے،سمجھ لینا چاہئے کہ مفاد پرستی، مادہ پرستی کی طرف گھسیٹ کر لے جاچکی ہے۔

ترقی کی منزلیں بہت تیزی سے طے کرتی اس دنیا میں آج سب سے زیادہ تیز رفتار اوربہت حد تک خطرناک جو چیز ہے اسے کہتے ہیں میڈیا، یہ مختلف قسم کی شکلوں میں موجود ہے، یہ بات کسی باشعور کو تو ناگوار نہیں گزر سکتی۔ ایک وقت تھا جب صرف پرنٹ میڈیا ہوا کرتا تھا جسکی بدولت کوئی خبر چوپیس چوبیس بلکہ اس سے بھی زیادہ تاخیر سے عام ہوتی تھی اور پھر ارباب اختیار اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے خبر کو جس طرح سے چاہتے عوام تک پہنچادیتے تھے یا پھر کسی خبر کو دبانا ہوتا تھا تو دبا لیتے تھے۔ اسطرح سے پاکستانی عوام کی تربیت ہوئی اور عوام کو وہاں تک معلوم ہوسکا جہاں تک انہیں بتایا گیا۔ پھر دنیا تورفتہ رفتہ آگہی کے سمندر میں اترتی چلی گئی اور کسی حادثے کا شکار ہونے سے بچ گئی، لیکن بدقسمتی نے پاکستانیوں کو اس آگہی کے سمندر میں جس میں بہت طغیانی آچکی تھی یکدم دھکیل دیا، ہم بہادر قوم ہیں اور ویسے بھی دھکیلا گیا تھا تو بیدریغ کود پڑے جس کے باعث پوری کی پوری قوم شدید جانکاری کے مہلک مرض میں مبتلا ہوگئی۔ہم پاکستانی جذباتی واقع ہوئے ہیں اس طوفان میں ایسے بہے کہ بھول ہی گئے کہ معاشرتی اقدار بھی ترقی کرنے کیلئے بہت ضروری ہوتے ہیں، ہم نے تو بس یہ سیکھا کہ بڑی خبر، اہم ترین خبر، سب سے پہلے خبر دینے والے ہم ہیں۔لاتعداد ٹیلی میڈیا کے ادارے کھل گئے اور یہ ادارے اس بات سے بے نیاز کے خبر کی تشہیر سے معاشرے پر کیا اثر پڑنے والا ہے۔وقت گزرتا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کے ہر دیگر امور کی طرح ان میں بھی سیاسی وابستگیاں پیدا ہوگئیں اور ان اداروں سے وابسطہ لوگ راتوں رات وہ ہوگئے جس کا خواب ہر آدمی دیکھتا ہے۔ یہ ادارے اور ان سے وابسطہ لوگ اس بات کو خارج از امکان کر بیٹھے کہ اسطرح سے ملکی سالمیت کو کیا نقصان پہنچنے والا ہے اور آج یہ لوگ کسی شتر بے مہار کی طرح ملک کو بین الاقوامی سطح پر تقصان پہنچا رہے ہیں۔

ہم نے پہلے بھی ایک مضمون بعنوان ”صحافتی طرفین” لکھ کر اپنے چوتھے ستون کو حقیقی تقویت پہنچانے کی کوشش کی تھی، جو نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوا۔ اگر ہم صحافت کو پاکستان کا چوتھا ستون کہتے ہیں تو پھر ہم اسس ستون کومضبوط کرنے کی بجائے روز بروز کمزور کیوں کرنے پر تلے ہوئے ہیں، کیوں پاکستان کو کمزور کرنے کے اقدامات کا ساتھ دے رہے ہیں، اگر کوئی ایسی معلومات ہیں جو ملک کی تضحیق کا باعث بن سکتی ہیں تو اسے روک لیں یہ ضروری نہیں کہ اپنی ذاتی شہرت کی تسکین کی خاطر ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیں۔ کیا لکھنے والے منصف بن سکتے ہیں اور فیصلے سنا سکتے ہیں بلکل بھی نہیں۔ سب سے پہلی بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ لکھنے والوں کی دو قسمیں موجود ہیں اس وہ قسم ہے جو باقاعدہ صحافت کی تعلیم حاصل کر کے اس فن میں اپنے جوہر ایک پیشہ ورانہ صحافی کی طرح نبہا رہے ہیں ان کی تعداد بہت محدود ہے جبکہ دوسری طرف ایسی صحافی برادری جو بہت بڑی تعداد میں ہے سوائے روننما ہونے والے واقعات اور ان پر اپنی ذاتی یا پھر کسی سیاسی وابسطگی کے تناظر میں خبر رسائی کے فرائض انجام دے رہے ہیں ایسی صحافی برادی کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، جن میں کثیر تعداد ایسے صحافیوں کی ہے جو بغیر کسی اجرت کے اپنی ذمہ داری نبہانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ کسی کے خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا سب کے سب پاکستان کے چوتھے ستون کی اینٹیں ہیں، اور ستون کی مضبوطی عمارت یعنی پاکستان کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔جیسا کہ حکومتی اقدامات سے واضح ہے کہ حکومت وقت بہت جلد صحافتی پیشے کوباقاعدہ پیشہ ورانہ امور پر استوار کرنے کیلئے کوئی نا کوئی عملی قدم ضرور اٹھائے گی۔ گوکہ صحافتی تنظیمیں اخلاقی اقدار پر کاربند رکھنے کیلئے صحافیوں پر باقاعدہ زور ڈالتی ہیں۔اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ جب بھی کسی سہولت کا استعمال غلط ہونا شروع ہوجاتاہے تو وہ سہولت روک دی جاتی ہے اس پر قائدے قانون نافذ کر دئے جاتے ہیں۔ ریاست سے آپ کسی صورت بھی لڑ نہیں سکتے۔

جس طرح کی دستاویزات منظر عام پر بین الاقوامی اداروں سے نکل کر سامنے آرہی ہیں، یہ بھی عالمی جنگ کیلئے دعوت نامے ثابت ہوسکتی ہیں، حقیقت ہے کہ اب تو معلومات سے خوف آتا ہے۔ اس رونما ہوتی معلومات نے تو ہمارے ملک کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، اسکے اثرات دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ ہر وہ اقدام ناقابل برداشت ہے جو ملک کی سالمیت کیخلاف اٹھایا جائیگا، انفرادی حیثیت میں ہویا پھر اجتماعی، نقصان ناصرف صحافت کو ہوگا بلکہ سب سے بڑھ کر ملک کو نقصان ہوگا۔ معلومات کو خوفزدہ کرنے یا انگریزی میں بلیک میل کرنے کیلئے خدارا استعمال کرنا چھوڑ دیں کیونکہ اب کسی سے فرد واحد سے بھی آپ کچھ چھپا نہیں سکتے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں