ہم ابھی مایوس نہیں ہوئے! (شیخ خالد زاہد)

قدرت کے بہت سارے رازوں میں یہ اہم ترین راز ہے کہ آدم کی تخلیق کب ہوئی اور دنیا کا وجود کب سے ہے،قدرت کی ظاہری اور پوشیدہ فراہم کردہ نشانیوں کی بنیاد پر اندازوں سے یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کب وجود میں آئی۔ کسی نے انسان کی تخلیق کو کسی طرح سمجھا اور کسی نے کچھ اور طرح سے۔ مختلف اندازوں سے پتہ چلانے کی ناممکن کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ابتک دنیا میں کتنے انسان پیدا ہوچکے ہیں۔پہلے نمبر پر دنیا میں وہ لوگ ہیں جنکا علم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے یہ وہ لوگ ہیں جنکا ہونا انکے اپنے لئے بھی الغرض ہے، دوسرے درجے پر وہ لوگ آتے ہیں جو علم تو رکھتے ہیں لیکن صرف اتنا ہی جتنا کہ انہیں کتابوں سے مل سکا ہوتا ہے یہ لوگ سطحی علم کی بنیاد پر دنیا میں اپنے وجود کی پہچان کروالیتے ہیں اور تیسرے نمبر پروہ عظیم المرتبت لوگ آتے ہیں جو لفظوں سے اور قدرت کی نشانیوں سے علم کشید کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو بہت اچھی طرح سے اندازے لگا سکتے ہیں ہیں قدرت نے کہاں کیا چھپایا ہوگا ان میں سے کچھ لوگ اپنے علم کی بنیاد پر خدائی کے دعویدار بھی بنے لیکن جو حد ہے اسے عبور کیا ہی نہیں جاسکتا ہے۔ قدرت کی کاریگری کا کیا کہنا کہ اربوں کھربوں انسانوں کی شکلیں تمام مخصوص اعضاء کیساتھ بھی مختلف ہوتی ہیں، رنگ مختلف ہوتے ہیں، چلنے پھرنے اور بولنے مسکرانے کے انداز مختلف ہوتے ہیں۔ اسطرح سے قدرت نے انسانوں کو علاقوں خطوں بر اعظموں اور پھر ملکوں میں تقسیم کیا، پہاڑوں میں رہنے والے، صحراؤں میں رہنے والے، میدانوں میں رہنے والے، ہرے بھرے سبزے میں رہنے والے، جو خود بھی نہیں جانتے مگر اپنے اپنے علاقے کی پہچان بن جاتے ہیں۔گو کہ انسانیت کو ہر حال میں فوقیت دی گئی لیکن مخصوص وجوہات کی بنا پر تقسیم بھی ضروری تھی۔ یوں سمجھ لیجئے روئے زمین کہاں تک ہے اس بات کو جاننے کیلئے ضروری تھا کہ دنیا کے کونے کونے میں لوگوں کو آباد کیا جاتا۔دنیا کہ وجود میں آنے کے بعد اسے کئی بار برباد کیا گیا، کبھی طوفان نوح ؑنے یہ ذمہ داری نبھائی تو کبھی قوم لوط کی بے راہ روی نے ہوا کو اس بربادی کیلئے مدعو کیا۔ یعنی اللہ رب العزت نے نافرمانوں کو، اپنی نعمتوں اپنی رحمتوں کے ناشکروں کو صفہ ہستی سے اسلئے مٹا دیا کہ آنے والوں کیلئے عبرت کا نشان بنا دیا جائے لیکن انسان تھا کہ سب کچھ جان کر بھی انجان بنا پھرتا رہاہے، یہ نا تو کل سمجھا تھا اور نا ہی آج سمجھنے کو تیا رہے۔

انسان ناشکرا اور نافرمان رہتے ہوئے مہذب ہو نے کا دعویدار ہوگیا، لیکن ساری انسانیت تہذیب یافتہ نہیں ہوسکی، یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔ جیسے جیسے دنیا آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اسی طرح سے تاریخ زمین کی کھدائی سے جلوہ گر ہوتی جا رہی ہے۔ کہیں ترقی تو ہوگئی لیکن افراد غیر مہذب رہ گئے اورکہیں لوگ تہذیب یافتہ ہورہے تو ترقی سے محروم رہ گئے۔ کہیں تہذیب اور ترقی محکوم بن کر آئی یعنی جسکی محکوم ہوئی اسکی تہذیب کو اپنی تاریخی حیثیت کی تہذیب میں ضم کرنے کی ناکام کوشش کی جانے لگی۔ملک چھوٹا ہو یا بڑا دنیا میں اپنی منفرد شناخت پیدا کرنے کا حق رکھتا ہے اور یہ اس ملک و قوم کے رہنماؤں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ کس طرح سے اپنے ملک کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ہر ملک کا زیبائش و آرائش سے لیکر رہن سہن اور کھانے پینے کی تیاری مختلف ہوتی ہے۔ملک کتنا چھوٹا ہی کیوں نا ہو وہ اپنی شناخت کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ دنیا وی طاقت کے خداؤں نے ایسے حالات پیدا کر رکھے ہیں کہ چھوٹے ممالک سر اٹھانے کا سوچتے بھی نہیں ہے۔ آج ایسے ممالک کی بقاء داؤ پر لگی ہوئی ہے ہر طاقتور ملک اپنے اردگرد چھوٹے چھوٹے ممالک کو اپنے اندر ضم تو نہیں کرنا چاہتا لیکن اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

اس بات کا چرچا سالوں پہلے شروع کیا جاچکا تھا کہ آنے والے دنوں میں جسکی معیشت مستحکم ہوگی، دنیا پر حکمرانی خود بخود مل جائے گی۔ اسلح و بارود دنیا میں آج بھی خونریزی کا سبب بنے ہوئے ہیں لیکن آج یہ خونریزی کوئی اپنی دنیاوی حاکمیت کی بقاء کیلئے کر رہا ہے اور بہت سارے اسکے حواری جو اعلانیہ ابھی اس بدحالی کی جنگ سے باہر نہیں نکل سکتے آہستہ آہستہ پیچھے کی جانب ہٹ رہے ہیں اور زمینی خدا ہونے کی خواہش رکھنے والوں کو انکے حال پر چھوڑدینا چاہتے ہیں۔بارود کا کھیل کھیلنے والے سماجی میڈیا کی بے پناہ آزادی کی بدولت آج دنیا میں رسوا ہوتے جا رہے ہیں۔ مادہ پرستی کے دور میں دنیا کو معیشت کی سمجھ ہویا نا ہو لیکن معاشی طاقتور کیا ہوتا ہے یہ سمجھ آچکا ہے۔دنیا پر حکومت کرنے والے آج بھی اسلحے کے بیوپاری بنے ہوئے ہیں خود ایک دوسرے کو لڑاتے ہیں اور اپنا اسلحہ دونوں طرف بیچتے ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورے سے کیا حاصل جمع ہونے والا ہے یہ وقت بتائے گا۔ پاکستان کی تہذیب کی بھرپور عکاسی کرتے صرف اور صرف وزیر اعظم ہی دیکھائی دئے جسکی سب سے بڑی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان صاحب پہلی دفعہ ایسی مسند پر براجمان ہیں جبکہ وفد میں شامل دیگر صاحبان بارہا اس آگ سے گزرے ہوئے ہیں۔ سمجھنے کیلئے دوچیزیں ہیں ایک تو یہ کہ ملاقات کو روائتی رنگ دے کر اور ناکام قراد دیا جائے جیسا کہ حکومت مخالف جماعتیں چاہتی ہیں جبکہ دوسری چیز یہ ہے کہ پہلے دن سے لیکر آخری دن تک اس دورے کا ایک ایک لمحہ پاکستان زندہ آباد کے نعرے سنائی دے رہا تھا۔ کیا اس بات کا اعتراف پاکستان کے تجزیہ کار و تحقیق کاراور حکمت عملیاں ترتیب دینے والوں (تھنک ٹینک)کواپنی سیاسی وابستگیاں بالائے طاق رکھ کر دورے کے ان پہلؤں کو اجاگر کرنا چاہئے جن سے باقی دنیا کو پتہ چلے کہ پاکستان ذہنی بدعنوانی سے بھی پاک ہونے لگا ہے۔ اپنی تہذیب و تمدن کو عام کرنے سے اپنی قومی زبان میں دنیا سے بات کرنے سے ہم اپنی سال ہا سال سے کھوئی ہوئی پہچان دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ کیا یہ امریکی اعلی حکام کیلئے حیران کن نہیں تھا کہ ایک پاکستانی وزیر اعظم انگریزی میں کی جانے والی گفتگو میں برابر کا شریک تھا اور بغیر کسی یچکچاہٹ کہ یا پھر کسی بھی قسم کی مدد کے بولے ہی چلے جا رہا تھا۔ وزیراعظم پاکستان کا چہرہ مسخ نہیں کر رہے ہیں وہ تو لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ تمھارا پیسہ کیسے اور کس نے کھایا ہے،جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو کسی قسم کی مراعات و سہولیات میسر نہیں آسکیں۔یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک ادارہ جسکا تعلق حکمرانوں سے ہو وہ فائدے میں چلے اور جسکا تعلق عام آدمی سے ہو وہ خسارے میں جاتا جائے۔ کیا یہ بتانا جرم ہے کہ آپ نے جو سال ہا سال سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں جو رقم جمع کروائی ہے اس سے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دئیے گئے ہیں۔ گوکہ ہم بطور پاکستانی اپنی پہچان اگر کھو نہیں چکے تھے تو بدنام زمانہ ضرور کروا چکے تھے۔

پشاوری چپل اور قومی لباس زیب تن کئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دنیا کی طاقتور جگہ پر پہنچ کر زمینی خداؤں کے مسکن میں انکی زبان میں بات کی ہے، ایک سچے مسلمان اورمحب وطن پاکستانی کی عملی تصویر پیش کی ہے۔ یقینا پاکستان کا رعب و دبدبا ساری دنیا میں پہنچا ہے ہمارے ثقافتی لباس نے آقاؤں کے پیروں میں زمین کو ہلا دیا ہے۔ ہم اس سارے منظر کو ایسے دیکھا ہے اور اس لئے ہم ابھی مایوس نہیں ہیں کیونکہ خداکہ یہاں دیر ضرور ہے اندھیر نہیں ہے۔ یہ وقت ہے کہ سب ایک ہوجائیں اور پاکستان کو سپر پاور بنانے کیلئے ایک طاقت بن کر پھرسے ابھریں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں