روس کا بڑھتا عالمی اثرورسوخ (ساجد خان)

امریکہ کے انتخابات کے فوراً بعد ہی یہ شکوک و شبہات سامنے آنا شروع ہو گۓ تھے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو جتوانے میں روس نے انتخابات میں مداخلت کی ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ارکان کی روسی افراد سے ملاقات کی خبریں بھی سامنے آنا شروع ہو گئیں تو رابرٹ ملر کی سربراہی میں روسی مداخلت پر انکوائری کے لئے ایک تفتیشی ٹیم مقرر کی گئی،جس نے کئی ماہ کی تفتیش کے بعد گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔

یہ رپورٹ فی الحال پبلک نہیں کی گئی مگر نظر یہی آ رہا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں روسی مداخلت کے ثبوت مل گۓ ہیں،اس رپورٹ کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اشاروں کنایوں میں روسی مداخلت کا اعتراف کیا ہے جبکہ اسے صدارت سے ہٹانے جانے کی کسی بھی قرارداد کے پیش کرنے پر سخت نتائج سے بھی آگاہ کیا ہے۔

ہم اگر اس رپورٹ کو ایک طرف بھی رکھ کر حالات کو دیکھیں تو یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے کہ امریکہ کی طرف سے کہیں نا کہیں روسی اثرورسوخ کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس کی پہلی مثال شام ہے جہاں ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد دلچسپی نا صرف کم کر دی گئی ہے بلکہ ایسے حالات بھی پیدا کۓ جا رہے ہیں کہ جس سے شام میں روس سب سے زیادہ طاقتور فریق بن کر سامنے آۓ۔

شام میں روس کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ایران تھا کہ جس کا اثرورسوخ سب سے زیادہ تھا اور شام کی جنگ میں ایران نے سب سے زیادہ رسکی کردار ادا کیا اور وہ تھا زمینی جنگ کرنا،جس کے لئے ایران نے حزب اللہ،پاسداران،فلسطینی اور عراقی ملیشیا کے ساتھ ساتھ فاطمیون اور زینبیون جیسے ملیشیا گروہوں کا استعمال کیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی جنگ میں آپ جتنے فضائی حملے کر لیں،آپ دشمن کو شکست نہیں دے سکتے،جب تک کہ آپ زمینی فوج میدان میں نہیں اتارتے اور آپ کا نقصان اسی وقت سب سے زیادہ ہوتا ہے جب آپ دو بدو جنگ کرتے ہیں اور اس جنگ کی ذمہ داری ایران نے لی اور ایک بڑی حد تک نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔

اب جبکہ جنگ اپنے اختتام کو ہے تو روس کی خواہش تھی کہ وہ ایران کو شام سے نکال کر خود اعلیٰ مالک بن جائے لیکن وہ براہ راست ایران سے دشمنی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کے لئے اسے اپنی فوج زمین پر اتارنی پڑتی جو کہ نہایت خطرناک منصوبہ تھا۔

اس لئے اس کے لئے ایک طرف تو اسرائیل کو استعمال کیا گیا جو ایرانی فوج پر مسلسل فضائی حملے کر رہا ہے حالانکہ شام میں روسی دفاعی نظام موجود ہے لیکن وہ ایرانی مفادات کا دفاع نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود بھی ایران کا زور ختم نا ہوا تو امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں اور پھر بحری بیڑے اور فوج مشرق وسطیٰ روانہ کر دی گئی۔
اس صورتحال سے ایران کی تیل سپلائی کافی حد تک متاثر ہوئی،جس کا اثر شام میں جاری کارروائیوں پر پڑ رہا ہے تاکہ شام میں ایران سرمایہ کاری اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے فنڈز فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

اس کے بعد وینزویلا کا مسئلہ اٹھا کہ جہاں امریکہ نے فوجی کارروائی کرنے کی دھمکی دی،جس کے فوراً بعد ہی روسی فوج کا دستہ وینزویلا روانہ ہو گیا اور جیسے ہی وہ ملک روس کے پلڑے میں آیا،امریکہ نے وینزویلا کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔

اس کی تیسری مثال Huawei کا مسئلہ ہے،جس پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پابندی عائد کر دی۔

اس کمپنی نے روس سے معاہدہ کر لیا،جس کے بعد فائیو جی کا آغاز اب روس اور چین کی مشترکہ کاوش سے ہو گا جبکہ وقتی طور پر امریکہ ٹیکنالوجی کی اس جدت سے محروم ہو جائے گا،اب ظاہر ہے کہ امریکہ نے پکا پھل روس کی گود میں پھینک دیا ہے یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت میں روس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور وہ اس کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی چین کے خلاف اقدامات کے بعد روس اور چین میں بہت سے شعبوں میں باہمی دلچسپی بڑھتی نظر آ رہی ہے اور دونوں ممالک کے کاروبار میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح ترکی جو کبھی امریکی اتحادی تھا،اب روس کے زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حال ہی میں فرانس پر بھی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ اب وقت ہے کہ روس یورپ کے خدشات دور کرے تاکہ ایک نۓ تعلقات کا آغاز ہو جبکہ میکسیکو بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی مسلسل دھمکیوں سے تنگ آ کر چین سے کاروباری تعلقات بڑھانے کا خواہشمند ہے یعنی امریکہ کو ہر طرف سے کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور کا سب سے زیادہ فائدہ تین ممالک کو ہو رہا ہے روس،سعودی عرب اور اسرائیل جبکہ سب سے زیادہ نقصان شاید امریکہ کو ہی ہو گا کیونکہ اس دوران روس بہت حد تک اپنا اثرورسوخ بڑھا چکا ہے اور اگلے سالوں میں امریکہ کو روس کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے میں کافی دقت پیش آ سکتی ہے۔

ان سب حالات و واقعات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے وقت میں روس دوبارہ سپر پاور بن جائے گا اور اس میں اہم کردار خود امریکہ کا ہی ہو گا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں