آم کا عام دن! (ببرک کارمل جمالی)

آج کل پورے ملک میں آم کا موسم عام ہے۔ سب ہی گرمیوں کی اس سوغات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ہم نے پاکستانی آموں کی اتنی تعریف سُن رکھی ہے جنتی بیویوں کی شوہروں سے اور حکمرانوں کی اپوزیشن سے، سب ایک باغ کے مولی ہوتے ہیں، ضیاءالحق آم کھا کر اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ آپ بازار سے مختلف اقسام کے آم خرید کر لا سکتے ہیں اور ان کو کھا کے خوب انجوائے بھی کر سکتے ہیں۔ ان آموں کی کئی اقسام پاکستان میں پائی جاتی جن میں لنگڑا، انور راٹول اور سرولی تو بہت ہی لذیذ اور میٹھے بھی ہیں۔ ان آموں کی فصل میں پھول موسم بہار میں آتے ہیں اور فصل جون میں پک کر تیار ہو جانا شروع ہو جاتی ہے۔ آم کے پودے لگانے کے بعد ابتدائی چند سالوں میں مخلوط کاشت کی جا سکتی ہے۔ مخلوط کاشت کے لیے پھلدار اجناس کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اکثر آموں کی پیوند کاری بھی آج کل عام کی جاتی ہے۔

پاکستان میں سیکڑوں اقسام کے آم پائے جاتے ہیں جن میں کٹوری، سندھڈی اور چونسا بھی اعلیٰ قسم کے آم ہیں، ان کا ذائقہ بہت الگ ہے، ان کو آموں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح لاہور جس نے دیکھا، وہ پیدا نہیں ہوا اسی طرح جس نے “چونسہ” نہیں کھایا تو اس نے زندگی میں آم ہی نہیں کھایا ہے۔

دنیا میں آموں کی سیکڑووں اقسام ہیں لیکن سندھ میں پائی جانے والی آم اعلیٰ قسم، دیسی دسہری جس نے کھایا وہ اس آم کا شیدائی بن جاتا ہے۔ یہ چھوٹا ضرور مگر انتہائی میٹھا آم ہے جس کے کھانے کے بعد آپ ہر روز اس آم کو کھانے کے طالب بن جائیں گے جس نے دیسی دسہری نہ کھایا، اس نے زندگی میں آم نہیں کھایا۔

ویسے ملک میں کرپشن عام ہے، بکاؤ انصاف عام ہے،قبضہ مافیا عام ہے، غداری عام ہے، بھکاری عام ہیں، بےشعوری عام ہے، چوری عام ہے اور آموں میں قتلِ عام بھی عام ہے اور ان سب کی خوراک بھی آم ہے ویسے۔ آپ نے وہ محاورہ ضرور سنا ہوگا آم کے آم…گٹھلیوں کے دام۔ ان لوگوں کے لیے جو جہاز چلاتے ہیں، پائیلٹ آم تحفہ ہوتا ہے جنہیں پائیلٹ بھی شوق سے کھاتے ہیں اور ساری دنیا کی سیر کرواتے ہیں۔ آموں میں پائیلٹ آم بہت مشہور ہے جو کھائے تو اس عام کا شیدائی بن جاتا ہے۔ انہی پائیلٹ آم میں بھی جنرل ضیاالحق کے جہاز کو فضا میں اڑایا گیا تھا۔ اس روز سے حکمرانوں نے جہاز میں آم کھانا بند کر دیا تھا۔

جب کہ سندھ میں ایک اور اعلیٰ قسم کے آم پائے جاتے ہیں جن میں سند پہلوان سندھڑی لال بادشاہ، گلاب، بینگن پھلی، فجری اور دیسی چونسہ آم کھانے کے بعد انسان سارے مزے بھول جاتا ہے کہ یہ بھی اس ملک کی پیداوار ہے، ان آموں کو دیکھنا آسان ہے اور قیمت آسمان سے بات کرتی ہے۔ خریداری سے پہلے ذرا قیمت تھوڑا پوچھ لیجیے گا پھر نہ کہناخبر نہ ہوئی ہے۔

ایک بات ہمیشہ ذہن نشین کریں کہ آم کھانے سے پہلے اس کو دھو لیا کریں کیوں کہ ان آموں کو پکانے کے لیے اس میں کیمیکل بھی ڈالا جاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہوتا ہے جو انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل بھی سکتا ہے لہٰۃذا احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

مرزا غالب کی عام بارے کہاوت کچھ اس طرح سے ہے کہ، ” آم “ ہوں اور ”عام“ ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں